ملک کی مسلح افواج کی پاسنگ آؤٹ پریڈ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان اپنی علاقائی سالمیت، خودمختاری اور قومی مفادات کے تحفظ کے لیے ہر سطح پر تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ 22 کروڑ عوام اپنی بہادر افواج کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہیں اور ملکی سرحدوں کے دفاع میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جائے گی۔
وزیراعظم نے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے لیکن اس جذبے کو کسی صورت کمزوری نہ سمجھا جائے۔
تقریب کے دوران وزیراعظم نے بالاکوٹ واقعے کی یاد دہانی کراتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر دشمن نے کسی بھی قسم کی جارحیت یا مہم جوئی کا ارتکاب کیا تو پاکستان فروری 2019 کی طرح فوری اور بھرپور جواب دے گا۔
انہوں نے کہا کہ قومی وقار اور ملکی مفادات کے خلاف کسی بھی قدم کا پوری طاقت سے مقابلہ کیا جائے گا۔
پیلگام حملے کے پس منظر میں پیدا ہونے والی تازہ کشیدگی کا حوالہ دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اس واقعے کی غیر جانبدار، شفاف اور قابل اعتبار تحقیقات کے لیے ہر ممکن تعاون کو تیار ہے۔
انہوں نے مشرقی ہمسائے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ الزام تراشی کا سلسلہ، جو ثبوتوں کے بغیر جاری ہے، اب بند ہونا چاہیے۔
وزیراعظم نے اس موقع پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کا ذکر کرتے ہوئے اعادہ کیا کہ پاکستان کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کی حمایت جاری رکھے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ عالمی برادری میں اپنی ذمہ داریاں سمجھتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے مثال قربانیاں دی ہیں اور آئندہ بھی کسی دہشت گردی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
مزید برآں، وزیراعظم نے سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی کے بھارتی اقدام پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اپنی لائف لائن یعنی پانی کی حفاظت کو ہر قیمت پر یقینی بنائے گا۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی صورت میں پانی کے بہاؤ کا رخ موڑنے کی کوششوں کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا اور اس حوالے سے کسی کو کوئی خوش فہمی نہیں ہونی چاہیے۔
افغانستان سے تعلقات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ پرامن اور مستحکم تعلقات کا خواہاں ہے۔
انہوں نے افغان حکام پر زور دیا کہ وہ دہشت گرد عناصر، خصوصاً فتنہ الخوارج، کو اپنی سرزمین کے استعمال سے روکے تاکہ دونوں ممالک میں امن قائم رہ سکے۔
وزیراعظم نے قومی سلامتی کمیٹی کے حالیہ فیصلوں کا حوالہ بھی دیا، جس میں انڈیا کی جانب سے الزامات اور سندھ طاس معاہدے کی معطلی جیسے اقدامات کے جواب میں سخت اقدامات کیے گئے۔
کمیٹی کے اعلامیے کے مطابق، پاکستان نے انڈین ایئرلائنز کی پروازوں کے لیے اپنی فضائی حدود بند کرنے اور واہگہ-اٹاری بارڈر کو بند کرنے سمیت کئی اہم فیصلے کیے ہیں۔
اس کے علاوہ انڈیا سے تعلق رکھنے والے تمام افراد کو 48 گھنٹوں کے اندر پاکستان چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے، تاہم سکھ زائرین کو خصوصی رعایت دی گئی ہے۔
اعلامیے کے مطابق پاکستان میں انڈین ہائی کمیشن میں تعینات دفاعی، فضائی اور بحری مشیروں کو ناپسندیدہ شخصیات قرار دے دیا گیا ہے اور انہیں 30 اپریل تک ملک چھوڑنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
اس کے علاوہ انڈین سفارتی عملے کی تعداد کو بھی محدود کر کے 30 افراد تک کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے اپنی تقریر کے اختتام پر عالمی برادری کو پیغام دیا کہ پاکستان نہ صرف خطے بلکہ دنیا بھر میں امن، ترقی اور استحکام کا خواہاں ہے، تاہم اپنی خودمختاری، قومی مفادات اور وسائل کے تحفظ کے لیے کسی بھی قسم کی مہم جوئی یا سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا۔