بھارت نے ایک بار پھر آبی جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے دریائے جہلم میں اچانک پانی چھوڑ دیا، جس کے نتیجے میں آزاد کشمیر کے ضلع مظفرآباد کے علاقے ہٹیاں بالا میں شدید طغیانی پیدا ہو گئی۔ مقامی انتظامیہ نے ہنگامی طور پر آبی ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔
دریا کی سطح میں اچانک اضافہ ہونے سے کنارے کی بستیوں میں خوف و ہراس پھیل گیا، اور مساجد سے اعلانات کے ذریعے لوگوں کو محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہونے کی ہدایات دی گئیں۔
یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں سیاحوں پر حملے کے بعد پاکستان کے خلاف سخت بیانات دیے جا رہے تھے، جن میں سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا بھی عندیہ شامل تھا۔ واضح رہے کہ سندھ طاس معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960 میں طے پایا تھا، جو تین بڑی جنگوں، فوجی کشیدگیوں اور متعدد بحرانوں کے باوجود آج تک قائم ہے، اور دنیا بھر میں سرحد پار آبی تنازعات کے پرامن حل کی مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
تاہم، بھارت کے حالیہ اقدامات نے اس معاہدے کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیے ہیں۔ پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے ان اقدامات پر شدید ردعمل دیتے ہوئے بین الاقوامی قوانین کے تحت جوابی اقدامات کا عندیہ دیا ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی امید تھی کہ اقوام متحدہ بروقت کردار ادا کرے گا، مگر تاحال صرف ایک رسمی بیان سامنے آیا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر اس سنگین صورتحال کو فوری طور پر سفارتی سطح پر نہ سنبھالا گیا تو یہ بحران خطے میں مزید کشیدگی اور آبی تصادم کو جنم دے سکتا ہے