پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ جب تک مشترکہ مفادات کونسل (CCI) کے اجلاس میں نہروں کے معاملے پر حتمی فیصلہ نہیں ہوتا، کوئی نئی نہر نہیں بنائی جائے گی۔ اس اہم اعلان کا مقصد صوبوں کے تحفظات کا خیال رکھنا اور وفاقی حکومت کی جانب سے صوبوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنا ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران وزیراعظم شہباز شریف نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ مشترکہ طور پر نہروں کے معاملے پر غور و خوض کیا۔ انہوں نے کہا کہ وفاق سے اوپر ہمیں کوئی چیز نہیں ہے، اور اگر صوبوں کو کسی چیز پر تحفظات ہیں تو ان کی بات سنی جانی چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’ماضی میں جب کالا باغ ڈیم کے حوالے سے صوبوں کے تحفظات سامنے آئے، ہم نے اس منصوبے سے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا تھا۔
وزیراعظم کی جانب سے نہروں کے معاملے پر فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا میں وزیراعظم کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے ہماری بات سنی اور ہمارے تحفظات کو تسلیم کیا۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم نے وزیراعظم کے ساتھ اس معاملے پر تفصیل سے بات کی اور مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں ان فیصلوں کی تائید کریں گے۔
دریائے سندھ پر نہروں کے منصوبے کو لے کر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان گزشتہ چند ہفتوں سے شدید کشیدگی دیکھنے کو مل رہی تھی۔ پیپلز پارٹی کے موقف کے مطابق وفاقی حکومت نے بار بار تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی، مگر پیپلز پارٹی منصوبے کو مکمل طور پر ختم کرنے کے اپنے مطالبے پر ڈٹی رہی۔
پیپلز پارٹی اور وفاقی حکومت کے تعلقات میں مزید تناؤ اُس وقت آیا جب پیپلز پارٹی نے پارلیمنٹ میں حکومت کو ٹف ٹائم دینے اور قانون سازی میں کسی بھی قسم کی حمایت نہ کرنے کا غیرعلانیہ فیصلہ کیا۔ اس کے علاوہ بلاول بھٹو زرداری نے وفاقی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے حیدرآباد میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم وزارتوں پر لات مارتے ہیں، نہروں کا منصوبہ ختم کیا جائے
دریائے سندھ پر نہریں بنانے کے منصوبے کے خلاف سندھ کے مختلف علاقوں میں بڑے احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ سندھ کے کئی مقامات پر مظاہرین نے دھرنے دیے، جس کے نتیجے میں بین الصوبائی ٹریفک کی روانی متاثر ہوئی۔ پیپلز پارٹی نے نہروں کے منصوبے کو ختم کرنے کا اپنے موقف کو مزیدمستحکم کرنے کے لیے عوامی حمایت حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔
وزیراعظم شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کے درمیان اس معاہدے کے بعد یہ امید کی جا رہی ہے کہ نہروں کے منصوبے کے حوالے سے وفاق اور صوبوں کے درمیان اختلافات میں کمی آئے گی اور ایک مشترکہ حل کے لیے تمام فریقین مل کر کام کریں گے۔ اس فیصلے نے نہ صرف سیاسی کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کی ہے بلکہ سندھ میں ہونے والے عوامی احتجاج کو بھی نیا رخ دیا ہے۔