بلوچستان کے ضلع ژوب کے دور افتادہ پہاڑی علاقے قمرالدین کاریز میں اُس وقت ایک اہم اور حساس کارروائی انجام دی گئی جب محکمہ جنگلات و جنگلی حیات کو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو کے ذریعے اطلاع ملی کہ کچھ مقامی چرواہوں نے نایاب نسل کے نومولود بھیڑیوں کو پکڑ رکھا ہے۔
ویڈیو منظر عام پر آتے ہی محکمہ جنگلات نے فوری طور پر لیویز فورس کی مدد سے علاقے کا رخ کیا اور ان بچوں کو بحفاظت بازیاب کر لیا۔
محکمہ جنگلات ژوب ڈویژن کے کنزرویٹر، سید شراف الدین آغا کے مطابق، یہ نومولود بچے ایک پہاڑی غار سے چرواہوں نے اس وقت پکڑے تھے جب وہ غالباً اپنی ماں سے جدا ہو چکے تھے۔
چرواہوں کی نیت اگرچہ ابتدا میں اپنے مویشیوں کو بچانے کی تھی، لیکن بعد ازاں ان قیمتی جانوروں کی ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی، جس پر بعض افراد نے انہیں خریدنے کی پیشکش بھی کی۔
اگر یہ بروقت کارروائی نہ کی جاتی، تو یا تو یہ نایاب بچے مار دیے جاتے یا غیر قانونی خرید و فروخت کا شکار ہو جاتے۔
چیف کنزرویٹر شریف الدین بلوچ نے بتایا کہ یہ بچے "انڈین وولف” نسل سے تعلق رکھتے ہیں، جو دنیا کی نایاب اور خطرے سے دوچار جنگلی حیات میں شمار ہوتی ہے۔
عالمی ادارہ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (IUCN) نے اس نسل کو اپنی ریڈ لسٹ میں شامل کر رکھا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کا تحفظ عالمی اہمیت کا حامل ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ان نومولود جانوروں کی عمریں ایک ماہ سے بھی کم ہیں، اور وہ فی الحال خود سے زندہ رہنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
انہیں آئندہ تین سے چار ماہ تک خصوصی نگہداشت اور طبی دیکھ بھال فراہم کی جائے گی تاکہ وہ مکمل طور پر صحت یاب ہو کر زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں۔ اس کے بعد انہیں ایک محفوظ قدرتی ماحول میں چھوڑ دیا جائے گا جہاں وہ اپنی نسل کو آگے بڑھا سکیں۔
شریف الدین بلوچ نے انڈین وولف کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ یہ جانور عموماً نیم صحرائی، خشک اور کھلے علاقوں میں رہتا ہے۔
چونکہ اس کی قدرتی خوراک کم ہوتی جا رہی ہے، اس لیے یہ بعض اوقات انسانی بستیوں کے قریب آ کر مویشیوں پر حملہ کرتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مقامی آبادی اسے خطرہ سمجھتی ہے اور اکثر مار دیتی ہے، جو اس نایاب نسل کے خاتمے کا سبب بن رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انڈین وولف ماحولیاتی نظام میں شکاری کے طور پر ایک اہم کردار ادا کرتا ہے اور قدرتی توازن کو برقرار رکھنے کے لیے اس کی موجودگی ناگزیر ہے۔
اس کی بقا صرف سرکاری اقدامات سے ممکن نہیں بلکہ عوامی شعور اور تعاون کے بغیر یہ جنگلی حیات ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکتی ہے۔
محکمہ جنگلات کی اس کامیاب کارروائی نے نہ صرف چھ معصوم جانوں کو نئی زندگی دی بلکہ ایک قیمتی قدرتی ورثے کو بھی بچا لیا۔
اب یہ ذمہ داری ہم سب کی ہے کہ ہم اپنے جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے اپنی سوچ اور عمل میں مثبت تبدیلی لائیں۔