جنوبی ایشیا میں حالیہ تناؤ کے پس منظر میں پاکستانی دفتر خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ اگر بھارتی حکام سرحد پار کرنے کی اجازت فراہم کریں، تو حکومت پاکستان اپنے ان شہریوں کو واہگہ کے راستے واپس لانے کے لیے ہر ممکن تعاون کے لیے تیار ہے جو بھارت میں پھنسے ہوئے ہیں۔
ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے یہ بیان اُس وقت سامنے آیا جب میڈیا نے اُن اطلاعات کے بارے میں سوالات اٹھائے جن میں دعویٰ کیا گیا کہ متعدد پاکستانی شہری بھارتی علاقے اٹاری میں رکے ہوئے ہیں۔
ترجمان نے واضح کیا کہ اگر بھارتی حکام اجازت دیں تو پاکستان نہ صرف اپنے شہریوں کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے بلکہ مستقبل میں بھی واہگہ بارڈر کو پاکستانی شہریوں کی واپسی کے لیے کھلا رکھنے کے عزم پر قائم ہے۔
دفتر خارجہ کے مطابق بھارتی حکومت کی جانب سے حالیہ دنوں میں پاکستانی شہریوں کے ویزے منسوخ کیے جانے کے فیصلے نے انسانی سطح پر سنگین نتائج پیدا کیے ہیں۔
کئی ایسے مریض جنہیں بھارت میں اپنا علاج مکمل کرنا تھا، انہیں زبردستی وطن واپس جانا پڑا، جبکہ بعض خاندانوں کے افراد ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔
ترجمان کے مطابق ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ بعض بچے اپنے والد یا والدہ سے علیحدہ ہو گئے ہیں، جو ایک انسانی المیے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
اس سلسلے میں یہ بھی بتایا گیا کہ واہگہ-اٹاری سرحد سے پاکستانی شہریوں کی واپسی کے لیے آخری مہلت 30 اپریل 2025 مقرر کی گئی تھی۔
تاہم، بعض شہریوں کے وہاں پھنسے رہ جانے کی اطلاعات سامنے آنے پر دفتر خارجہ نے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ سرحد عبور کرنے کی اجازت فراہم کرے تاکہ انسانی بنیادوں پر ان شہریوں کی واپسی ممکن بنائی جا سکے۔
یہ سارا معاملہ اُس وقت سنگین نوعیت اختیار کر گیا جب 22 اپریل کو بھارتی زیرانتظام کشمیر کے تفریحی مقام پہلگام میں ایک پرتشدد واقعے میں 26 غیر ملکی سیاح ہلاک ہو گئے۔
بھارت نے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کرتے ہوئے کئی سخت فیصلے کیے جن میں سب سے نمایاں سندھ طاس معاہدے پر عمل درآمد کی معطلی، پاکستانی شہریوں کو ملک چھوڑنے کے احکامات، اور اسلام آباد میں بھارتی سفارتی عملے میں نمایاں کمی شامل ہیں۔
ان واقعات کے بعد بھارتی عوام میں پاکستان کے خلاف سخت ردعمل دیکھنے میں آیا، حتیٰ کہ عسکری کارروائی کے مطالبات بھی بلند ہوئے۔
جواباً پاکستان نے بھی سخت اقدامات کیے، جن میں سب سے اہم اعلان شملہ معاہدے سے ممکنہ طور پر علیحدگی کی دھمکی، بھارتی شہریوں کو پاکستان چھوڑنے کی ہدایت، اور اپنی فضائی حدود کو بھارتی پروازوں کے لیے بند کرنا شامل تھا۔
عالمی سطح پر اس تشویشناک صورتحال کو سنجیدگی سے لیا گیا ہے۔ سعودی عرب، ترکیہ، اور امریکہ سمیت کئی بااثر ممالک نے دونوں ہمسایہ ایٹمی طاقتوں کی قیادت پر زور دیا ہے کہ وہ تحمل، تدبر اور مذاکرات کو ترجیح دیتے ہوئے کشیدگی کو بڑھنے سے روکیں اور خطے میں امن و استحکام کو ممکن بنائیں۔