پاکستان میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور متحدہ عرب امارات میں روزگار کے مواقع میں کمی کی وجہ سے پاکستان نے جاپان کی طرف رخ کیا ہے تاکہ جاپان میں پاکستانی ورکروں کی برآمد کو فروغ دیا جا سکے۔
اس کا مقصد پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے کے لئے ایک نیا راستہ تلاش کرنا ہے اور اس طرح سے پاکستانی ورکروں کو جاپان میں نئی ملازمتیں مل سکیں۔
یہ اقدام اس لیے بھی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر پاکستان کی معیشت کے لیے نہایت اہم ہیں۔
تاہم، پاکستان کے لیے سب سے بڑی چیلنج جاپانی ثقافت اور زبان کا سامنا کرنا ہے، کیونکہ پاکستانیوں کو جاپان میں کام کرنے کے لئے جاپانی زبان سیکھنی اور جاپانی معاشرتی روایات کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے۔
جاپان نے طویل عرصے سے پاکستانی ماہر کاریگروں کی ضرورت محسوس کی ہے، لیکن اس کا راستہ ثقافتی اور زبان کی رکاوٹوں کی وجہ سے مشکلات کا شکار رہا۔ حالیہ برسوں میں ان رکاوٹوں کو کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور اس میں خاصی کامیابی حاصل کی گئی ہے۔
جاپانی حکومت نے پاکستانی ورکروں کے لیے جاپان میں ملازمت کے نئے دروازے کھولنے کی منصوبہ بندی کی ہے، جس سے نہ صرف پاکستان کو اقتصادی فائدہ ہوگا بلکہ پاکستانی ورکروں کو جاپان کے جدید اور ترقی یافتہ صنعتی شعبے میں کام کرنے کا موقع ملے گا۔
جاپانی سفیر اکا ماتسو شوئیچی نے اس بات کا ذکر کیا کہ اس سال جولائی میں ہونے والے جاپانی زبان کے امتحان (JLPT) میں پاکستانیوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی ظاہر ہو رہی ہے، جس میں ایک ہزار سے زائد پاکستانیوں نے درخواست دی ہے۔
اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی نوجوانوں میں جاپانی زبان سیکھنے کے لیے دلچسپی بڑھ رہی ہے، جو کہ مستقبل میں جاپان میں کام کرنے کے امکانات کو بڑھا سکتا ہے۔
پاکستانی محنت کشوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر اب پاکستان کی معیشت کے لیے سب سے اہم ذریعہ بن چکی ہیں اور یہ زرِ مبادلہ پاکستان کے لیے برآمدات سے بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اس سال پاکستان کو 38 ارب ڈالر کی ترسیلات زر حاصل ہونے کی توقع ہے، جو کہ برآمدات سے کہیں زیادہ ہیں۔
مارچ کے مہینے میں ہی پاکستان نے 4.1 ارب ڈالر کی ترسیلات زر وصول کیں، اور اس کے ساتھ ساتھ مجموعی طور پر 28 ارب ڈالر کی ترسیلات زر کا حجم ریکارڈ کیا گیا۔
اس کے علاوہ 2023 میں 8 لاکھ 63 ہزار پاکستانی بیرون ملک گئے، جن میں سے 2 لاکھ 30 ہزار پاکستانی صرف متحدہ عرب امارات میں کام کے لیے گئے تھے۔ تاہم، متحدہ عرب امارات میں پاکستانی ورکروں پر پابندیاں عائد کرنے کے بعد یہ تعداد کم ہوگئی۔ امارات حکومت نے پاکستانی ورکروں کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں کے باعث پابندیاں عائد کیں، جن میں بھیک مانگنا اور دیگر غیر قانونی سرگرمیاں شامل ہیں۔
اس کے نتیجے میں 2024 میں صرف 64,130 پاکستانی متحدہ عرب امارات گئے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 72 فیصد کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کمی نے 2024 میں بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کی کل تعداد کو 7 لاکھ 27 ہزار 400 تک محدود کر دیا۔
جاپان کی جانب سے 340,000 غیر ملکی ورکروں کو اپنے ملک میں ملازمت دینے کا منصوبہ پاکستانی ماہر پیشہ وروں کے لیے ایک زبردست موقع فراہم کرتا ہے۔
اس بات کا ذکر وزیر برائے انسانی وسائل و اوورسیز پاکستانی چوہدری سالک حسین نے بھی کیا۔ جاپان میں کام کرنے کے لیے غیر ملکی کارکنوں کے لیے جاپانی زبان کی مہارت اور جاپانی ثقافت کا سمجھنا ضروری ہوتا ہے۔
جاپانی سفیر اکا ماتسو شوئیچی نے کہا کہ جاپان میں کام کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کارکن جاپانی زبان کی مہارت حاصل کریں اور جاپانی کاروباری ماحول کو سمجھیں۔
انہوں نے کہا کہ پلس ڈبلیو، ایکوسائنس، نیو میچ، نیوٹیک اور ہانا جیسے ادارے جاپان میں ملازمت کے لیے جاپانی زبان سیکھنے کے کورسز فراہم کر رہے ہیں، جو پاکستانی ورکروں کے لیے ایک بہتر موقع ثابت ہو سکتے ہیں۔
پاکستانی حکام نے کہا کہ جاپانی ثقافت کی کمی اور اس کے ساتھ احترام نہ ہونے کی وجہ سے جاپان میں انسانی وسائل کی برآمد میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان جاپان سے اپنی سالانہ ترسیلات زر کو 20 ملین ڈالر سے بڑھا کر 500 ملین ڈالر تک لے جا سکتا ہے، بشرطیکہ جاپانی ثقافت کو اپنایا جائے اور ان کی زبان سیکھنے پر توجہ دی جائے۔
اس بات کو مزید واضح کرتے ہوئے جاپانی سفیر نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعاون بڑھانے کے لیے طریقہ کار کو سادہ بنانا ضروری ہے تاکہ ورکروں کی تعداد بڑھائی جا سکے اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید مضبوط ہوں۔
جاپان کی بین الاقوامی تعاون ایجنسی (JICA) کے چیف نے بتایا کہ 2019 میں تکنیکی تربیت کے شعبے میں تعاون کے لیے مفاہمت کی یادداشت (MOC) کے دستخط کے بعد سے اوورسیز ایمپلائمنٹ کارپوریشن (OEC) اور دیگر اداروں کی کوششوں سے 100 سے زائد پاکستانی جاپان گئے ہیں۔ حالانکہ یہ تعداد ابھی تک تسلی بخش نہیں ہے، لیکن یہ ایک مثبت پیش رفت ہے، جس کا جاپانی سفیر نے خیرمقدم کیا۔
اس کے ساتھ ساتھ جاپان میں پاکستانیوں کے لیے روزگار کے مزید مواقع پیدا کرنے کے لیے پاکستان میں کاروباری ماحول کو بہتر بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے۔
ایک بہتر کاروباری ماحول جاپانی سرمایہ کاری کو پاکستان کی طرف راغب کرے گا اور اس کے نتیجے میں پاکستانی پیشہ وروں کے لیے مزید روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، جس سے پاکستان کی معیشت کو مزید فائدہ پہنچے گا۔
پاکستان میں جاپانی زبان اور ثقافت کی اہمیت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اور پاکستان کے نوجوانوں میں جاپانی زبان سیکھنے کی دلچسپی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
یہ رجحان پاکستانی ورکروں کے لیے جاپان میں نئے مواقع پیدا کرے گا، جو جاپان کے جدید اور ترقی یافتہ صنعتی شعبے میں حصہ لے سکیں گے اور اپنے وطن واپس آ کر وہاں کی صنعتی ترقی میں اہم کردار ادا کریں گے۔ ان سب عوامل سے پاکستان کے لیے جاپان ایک اہم اقتصادی شراکت دار بنتا جا رہا ہے۔