پاکستان میں پانی کے ذخائر اور دریاؤں کی نگرانی پر مامور اداروں نے حالیہ دنوں میں ایک نہایت تشویشناک صورتحال کی نشاندہی کی ہے، جس کا تعلق ملک کے مغربی دریاؤں، خصوصاً دریائے چناب سے ہے۔
دریائے چناب، جو کہ پاکستان کے زرخیز علاقوں کی آبپاشی کا ایک اہم ذریعہ ہے، اس وقت شدید پانی کی قلت کا شکار ہے۔ اس کمی کو ایک معمولی موسمی تبدیلی کے بجائے بھارت کی دانستہ اور منظم کارروائی کا نتیجہ سمجھا جا رہا ہے۔
یہ معاملہ اُس وقت سنگین تر صورت اختیار کرتا ہے جب پسِ منظر میں بھارت کی جانب سے یک طرفہ طور پر 1960 کے سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کا اعلان شامل ہو، جس معاہدے نے دہائیوں سے پاکستان اور بھارت کے درمیان دریاؤں کے پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا ہوا تھا۔
یہ معاہدہ ورلڈ بینک کی نگرانی میں طے پایا تھا اور اس کے تحت تین مغربی دریا (چناب، جہلم اور سندھ) پاکستان کے لیے مختص کیے گئے تھے جبکہ تین مشرقی دریا بھارت کے تصرف میں رہے۔
تاہم، حالیہ بھارتی بیانیے اور میڈیا رپورٹس کے مطابق نہ صرف معاہدہ ختم کرنے کا عندیہ دیا جا چکا ہے بلکہ عملی اقدامات بھی شروع ہو چکے ہیں۔
انڈین اخبار ہندوستان ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ بگلہیار ڈیم سے دریائے چناب کی طرف بہنے والا پانی روک دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، کشن گنگا ڈیم سے جہلم کی طرف بہاؤ کو روکنے کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔
بعض انڈین ذرائع تو یہاں تک دعویٰ کر رہے ہیں کہ آئندہ چند دنوں میں پاکستان کو جانے والا 90 فیصد پانی بند کر دیا جائے گا۔
ادھر پاکستان کے واپڈا ادارے کی روزانہ کی بنیاد پر جاری ہونے والی آبی رپورٹوں کے مطابق ہیڈ مرالہ کے مقام پر دریائے چناب میں پانی کی آمد میں گزشتہ تین دنوں کے دوران غیرمعمولی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
اگر 3 مئی کو 40 ہزار 900 کیوسک پانی وہاں پہنچ رہا تھا، تو 5 مئی کو یہ مقدار گھٹ کر صرف 5 ہزار 300 کیوسک رہ گئی۔ ماہرین کے مطابق اس سطح کی کمی کسی فطری وجہ سے ممکن نہیں، بلکہ اس کے پیچھے ایک منظم حکمتِ عملی کارفرما ہو سکتی ہے۔
دوسری جانب، خبر رساں ادارے رائٹرز نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ بھارت نے سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کے بعد خفیہ طور پر دو نئے ڈیموں پر کام شروع کر دیا ہے، اور ان منصوبوں کے بارے میں پاکستان کو کوئی اطلاع یا تکنیکی تفصیل فراہم نہیں کی گئی، حالانکہ معاہدے کے تحت یہ بھارت کی قانونی ذمہ داری تھی۔ اس خلاف ورزی سے دونوں ملکوں کے درمیان نہ صرف پانی بلکہ سفارتی کشیدگی بھی مزید بڑھنے کا امکان ہے۔
پاکستان کی معیشت کا بڑا دارومدار زرعی شعبے پر ہے، اور یہی شعبہ دریاؤں سے حاصل ہونے والے پانی پر انحصار کرتا ہے۔
اگر دریائے چناب جیسے بڑے دریا کا پانی اچانک کم ہو جائے یا بند کر دیا جائے، تو اس کے نتیجے میں نہ صرف فصلوں کی پیداوار متاثر ہو گی بلکہ لاکھوں کسانوں کا روزگار اور ملکی غذائی تحفظ بھی داؤ پر لگ سکتا ہے۔
ماحولیاتی ماہرین نے اس صورتحال کو قومی سلامتی کے مسئلے کے طور پر اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو فوری طور پر بین الاقوامی سطح پر اس معاملے کو اٹھانا چاہیے۔ بھارت کی یہ مبینہ کارروائی ایک ایسی آبی جنگ کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے، جو پورے جنوبی ایشیا کو غیر مستحکم کر دے گی۔
واپڈا کی رپورٹوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ فی الحال صرف دریائے چناب میں پانی کی سطح غیرمعمولی طور پر کم ہوئی ہے، جبکہ دیگر دریاؤں جیسے دریائے سندھ، جہلم، کابل اور چشمہ بیراج میں پانی کی آمد معمول کے مطابق ہے۔
مگر اگر بھارت نے کشن گنگا یا دیگر ڈیمز سے بھی پانی روکنے کا فیصلہ کر لیا تو آنے والے دنوں میں ان دریاؤں کی سطح بھی کم ہو سکتی ہے۔
اب تک پاکستان کی حکومت کی جانب سے اس مسئلے پر کوئی باضابطہ سرکاری موقف سامنے نہیں آیا، لیکن باخبر ذرائع کے مطابق وزارت خارجہ، وزارت آبی وسائل اور بین الاقوامی قانون کے ماہرین اس صورتحال پر غور کر رہے ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کو فوری طور پر اقوام متحدہ، عالمی بینک اور انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس سے رجوع کرنا چاہیے تاکہ بھارت کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی سے روکا جا سکے۔