بھارت نے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرتے ہوئے کشمیر کے ہمالیائی علاقے میں دو بڑے ہائیڈرو الیکٹرک منصوبوں پر کام شروع کر دیا ہے، جس سے پاکستان کے آبی ذخائر پر سنگین اثرات مرتب ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق بھارت کی سب سے بڑی سرکاری ہائیڈرو پاور کمپنی، این ایچ پی سی لمیٹڈ، اور کشمیر کے حکام نے سلال اور بگلیہار ڈیموں پر پانی کی فلشنگ کا عمل شروع کر دیا ہے، جس کا مقصد ذخائر میں جمع ہونے والے گارے کو نکالنا اور بجلی کی پیداوار کو زیادہ مؤثر بنانا ہے۔
پاکستان نے اس اقدام کو شدید تشویش کی نگاہ سے دیکھا ہے اور معاہدے کی خلاف ورزی پر بین الاقوامی قانونی کارروائی کی دھمکی دی ہے۔ اسلام آباد کا کہنا ہے کہ "پاکستان کا پانی روکنا یا اس کا رخ موڑنا جنگی عمل تصور کیا جائے گا”۔ اس کے باوجود بھارت کا عزم واضح ہے: وزیرِ آب کا کہنا ہے کہ "دریائے سندھ کا ایک قطرہ بھی پاکستان نہ پہنچے”۔
سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے بعد بھارت نے اپنے ہائیڈرو پاور منصوبوں کی رفتار تیز کر دی ہے، جس میں خاص طور پر سلال اور بگلیہار ڈیم شامل ہیں۔ یہ دونوں منصوبے، جو دریا کے پانی سے بجلی پیدا کرتے ہیں، اب اضافی پانی کے ذخائر کے ذریعے مزید طاقتور بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان منصوبوں میں پانی کی فلشنگ کی گئی ہے تاکہ گارا نکالنے سے پانی کی روانی میں رکاوٹ نہ آئے۔
بھارت کی جانب سے کشمیر کے ہمالیائی علاقے میں نئے ہائیڈرو الیکٹرک منصوبوں کی تعمیر کا آغاز پاکستان کے لیے بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔ دونوں منصوبوں کی فلشنگ کارروائی سے متوقع پانی کی کمی کے ساتھ ساتھ پاکستان کی آبی ضروریات کو پورا کرنے میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ پاکستان کا آبپاشی اور پن بجلی پیدا کرنے کا بیشتر انحصار انھی دریاوں پر ہے جو بھارت کے زیر کنٹرول ہیں۔
بھارت نے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرتے ہوئے نہ صرف اپنے ہائیڈرو پاور منصوبوں کو تیز کیا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ کشمیر کے مختلف علاقوں میں نئے پانی ذخیرہ کرنے والے ڈیمز کی تعمیر کا بھی آغاز کر دیا ہے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات نہ صرف معاہدے کی خلاف ورزی ہیں بلکہ پورے خطے میں پانی کی کمی کے بحران کو جنم دے سکتے ہیں۔ بھارت نے سندھ طاس معاہدہ معطل کر کے پاکستان کے پانی پر قبضہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
کشمیر میں سلال اور بگلیہار جیسے اہم پن بجلی منصوبوں کی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں، جس سے پاکستان کے آبی ذخائر اور زرعی معیشت پر شدید اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ یہ اقدامات پاکستان کے لیے سنگین تشویش کا باعث بن چکے ہیں، اور اس کی جانب سے قانونی اور سیاسی ردعمل متوقع ہے