اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب، عاصم افتخار احمد، نے ایک بار پھر عالمی سطح پر خبردار کیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں پائی جانے والی کشیدگی، خاص طور پر پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری تناؤ، عالمی امن کے لیے ایک حقیقی خطرہ بن چکا ہے۔
انہوں نے سلامتی کونسل کے حالیہ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان دیرینہ تنازعات کو سفارتی اور پرامن انداز میں حل نہ کیا گیا، تو اس کے بھیانک نتائج پوری دنیا کو بھگتنے پڑ سکتے ہیں۔
مندوب کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس پاکستان کی درخواست پر منعقد ہوا جس میں بنیادی طور پر تین نکات پر زور دیا گیا۔ سب سے پہلے، پاکستان چاہتا تھا کہ اقوام متحدہ کے رکن ممالک پاکستان اور بھارت کے درمیان بگڑتی صورتحال کو سنجیدگی سے زیر بحث لائیں۔
دوسرا نکتہ یہ تھا کہ کشیدگی کو کسی بھی ممکنہ تصادم سے پہلے کم کیا جائے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان براہ راست محاذ آرائی سے بچا جا سکے۔ تیسرا اور اہم مقصد کشمیر کے مسئلے کو اس کے بنیادی تناظر میں دوبارہ اجاگر کرنا تھا، کیونکہ یہی وہ مرکزی تنازع ہے جس سے تمام مسائل جنم لے رہے ہیں۔
عاصم افتخار نے اس بات پر زور دیا کہ کشمیر سات دہائیوں سے ایک حل طلب مسئلہ ہے، جو اقوام متحدہ کی منظور شدہ قراردادوں کے باوجود تاحال الجھاؤ کا شکار ہے۔ کشمیری عوام آج بھی اپنے بنیادی حق، یعنی حق خودارادیت، کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، جبکہ بھارت کی جانب سے ان پر غاصبانہ تسلط قائم رکھنے کی پالیسی جاری ہے۔
پاکستانی مندوب نے بھارت کے حالیہ اقدامات کو خطے میں امن کے لیے براہ راست خطرہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ نئی دہلی کی جانب سے اشتعال انگیز بیانات، غیرقانونی فوجی نقل و حرکت اور سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنا عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ایسی کارروائیاں صرف پاکستان کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے خطے اور بین الاقوامی امن و امان کے لیے تباہ کن نتائج کا باعث بن سکتی ہیں۔
عاصم افتخار کا کہنا تھا کہ موجودہ کشیدگی کی اصل وجہ بھارت کی جانب سے مسلسل الزام تراشی اور پاکستان پر بے بنیاد الزامات عائد کرنا ہے۔
ان کے مطابق، پہلگام واقعے کے بعد سے بھارت کا رویہ نہ صرف غیر ذمہ دارانہ ہے بلکہ سیاسی مقاصد کے لیے کشمیریوں کی پرامن جدوجہد کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ پاکستان نے اس واقعے کی مذمت کی ہے اور بھارت کے تمام الزامات کو یکسر مسترد کیا ہے۔
مندوب نے کہا کہ بھارت کی یہ پالیسی صرف اپنی عوام کو گمراہ کرنے، عالمی برادری کو دھوکہ دینے اور کشمیریوں کے قانونی حقوق کو دبانے کی کوشش ہے۔
پاکستان، انہوں نے دوٹوک انداز میں کہا، نہ صرف خطے میں امن کا خواہاں ہے بلکہ کسی بھی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار بھی ہے۔
انہوں نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان کی خودمختاری یا سالمیت کو کسی بھی طور پر خطرہ لاحق ہوا تو وہ اپنی دفاعی صلاحیت کو بروئے کار لانے میں کوئی جھجک نہیں کرے گا۔
اجلاس کے حوالے سے عاصم افتخار نے بتایا کہ پاکستان کے مقاصد بڑی حد تک حاصل ہو گئے ہیں، کیونکہ سلامتی کونسل کے کئی ارکان نے تحمل، گفت و شنید اور مسئلہ کشمیر کے پرامن حل پر زور دیا۔
متعدد ممالک نے اس بات کا اعادہ کیا کہ جنوبی ایشیا میں امن صرف اس وقت ممکن ہے جب کشمیری عوام کی خواہشات اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مسئلہ کشمیر کا حل نکالا جائے۔
انہوں نے کہا، ہم اقوام متحدہ میں اشتعال انگیزی یا الزامات کی سیاست کے لیے نہیں آئے، بلکہ امن کے فروغ کے لیے آئے ہیں۔ لیکن امن کے لیے صرف نعرے کافی نہیں، اس کے لیے عملی اقدامات، بردباری اور بین الاقوامی اصولوں کا احترام ضروری ہے۔
انہوں نے عالمی برادری، خاص طور پر اقوام متحدہ کی قیادت، سے اپیل کی کہ وہ اس نازک لمحے پر اپنی ذمہ داری نبھائیں اور جنوبی ایشیا کو ایک اور بحران میں دھکیلنے سے روکیں۔
اگر اقوام متحدہ اپنی بنیادی ذمہ داری یعنی عالمی امن و استحکام کے تحفظ کو سنجیدگی سے لیتی ہے تو کشمیر کا مسئلہ حل کرنا اس کے ایجنڈے کی ترجیح ہونی چاہیے۔
اس موقع پر پاکستانی مندوب نے کونسل کے اُن ارکان کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے غیرجانبداری، تدبر اور تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملات کو سفارتی سطح پر حل کرنے کی حمایت کی۔ ان کے مطابق، اقوام متحدہ کا یہی وہ اصل مقصد ہے جس کے لیے اس عالمی ادارے کا قیام عمل میں آیا تھا دنیا بھر میں امن قائم رکھنے اور کمزور اقوام کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے۔