کراچی :بھارت کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے سائے میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ملک کے تمام بینکوں کو ہدایت جاری کی ہے کہ ڈالر کے اخراج پر کڑی نظر رکھی جائے۔ اعلیٰ سطح پر خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ تنازع کے شدت اختیار کرنے کی صورت میں امریکی ڈالر کی طلب میں خطرناک حد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔
تاہم، حیرت انگیز طور پر اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک مارکیٹ میں سکون نظر آیا، اور کرنسی ڈیلرز کا کہنا ہے کہ ڈالر کی خریداری میں کسی غیر معمولی سرگرمی کا مشاہدہ نہیں کیا گیا۔ایک اہم انکشاف یہ سامنے آیا ہے کہ پاکستان میں ترسیلات زر کا 90 فیصد حصہ بھارتی ایکسچینج کمپنیوں کے ذریعے آتا ہے،خاص طور پر مشرق وسطیٰ سے۔ ان کمپنیوں کے ذریعے پاکستانی محنت کش رقوم وطن بھیجتے ہیں۔
کرنسی مارکیٹ سے وابستہ ایک تجربہ کار ڈیلر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ کمپنیاں دراصل ترسیلات زر کی ‘پشت پردہ قوت’ ہیں اور اگر بھارت چاہے، تو انہیں ایک معاشی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔بینکنگ ذرائع کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک نے "غیر رسمی اشارے” دے دیے ہیں کہ کسی بھی غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر ڈالر کے فلو کو مانیٹر کیا جائے۔ اس اقدام کا مقصد یہ ہے کہ اگر اچانک ڈالر کی اڑان شروع ہو جائے تو فوری طور پر اس پر قابو پایا جا سکے۔
اس تمام ہنگامے کے باوجود، کرنسی مارکیٹ پرسکون رہی۔ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچا نے کہااوپن مارکیٹ میں ڈالر کی طلب میں کوئی اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا، یہاں تک کہ بھارتی جارحیت کے باوجود بھی نہیں
انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ اگر ڈالر کی کمی پیدا ہو بھی گئی تو اس سے نمٹنے کی استعداد موجود ہے، مگر خبردار بھی کیا کہ ایک طویل تنازع دونوں ممالک کے لیے معاشی زلزلہ بن سکتا ہے۔
اگر کشیدگی طویل جنگ کی صورت اختیار کرتی ہے، تو یہ پاکستان کی کمزور معیشت کے لیے تباہ کن ہو سکتی ہے مگر بھارت بھی بچ نہیں پائے گا۔ ، معاشی ماہرین اور بینکارز اس بات پر متفق ہیں کہ دونوں ایٹمی ممالک کی معیشتیں کسی طویل تصادم کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔
بھارتی حملوں کے پہلے دن، اسٹاک مارکیٹ میں ابتدائی افراتفری ضرور دیکھی گئی، لیکن جلد ہی معاملات مستحکم ہو گئے۔
روپے کی قدر میں خاص فرق نہیں پڑا، سویپ پریمیم میں معمولی اضافہ ہوا، اور بانڈز کے منافع میں ہلکی سی حرکت دیکھی گئی۔ مارکیٹ نے فی الحال غیر یقینی صورتحال کو سنجیدہ نہیں لیا۔اس وقت صورتحال حساس ضرور ہے، مگر بازاروں میں گھبراہٹ نہیں۔ اسٹیٹ بینک اور کرنسی مارکیٹ دونوں محتاط انداز میں صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
بہرحال، بھارتی ایکسچینج کمپنیوں پر انحصار اور ترسیلات زر کی نازک نوعیت اس بات کی یاد دہانی ہے کہ پاکستان کو اپنے مالیاتی نظام میں خودمختاری بڑھانے کی ضرورت ہے۔