اسلام آباد: سپریم کورٹ کی جج جسٹس عائشہ ملک نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کو ایک اہم خط ارسال کیا ہے جس میں انہوں نے آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے مخصوص نشستوں کے کیس کا آرڈر اپ لوڈ نہ کرنے پر شدید اعتراض کیا ہے۔
یہ واقعہ اس وقت سامنے آیا جب سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں کے کیس پر نظرثانی درخواستوں کی سماعت کی تھی اور اس کے فیصلے کے بعد 3 بج کر 11 منٹ پر آرڈر جاری کیا گیا تھا، لیکن آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ نے یہ آرڈر اپنی ویب سائٹ پر اپ لوڈ نہیں کیا۔
جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے اس فیصلے میں اختلاف کیا تھا، جس کے بعد انہوں نے نظرثانی درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دے دیا تھا۔ تاہم، جب آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ نے اس فیصلے کو اپ لوڈ کرنے میں ناکامی کا مظاہرہ کیا، تو جسٹس عائشہ ملک نے چیف جسٹس کو خط لکھا، جس میں انہوں نے واضح طور پر کہا کہ اس عدم تعمیل کی حالت ناقابل برداشت ہے۔
خط میں جسٹس عائشہ ملک نے لکھا کہ جب وہ اور جسٹس عقیل عباسی نے اپنے اختلافات ریکارڈ کرائے، تو اگلے روز آرڈر جاری کرنے کے بعد، انہیں بتایا گیا کہ آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ آرڈر اپ لوڈ نہیں کر سکتا۔ اس پر جسٹس عائشہ ملک نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس سے درخواست کی کہ فوری طور پر اس مسئلے کو حل کیا جائے اور آرڈر کو بدون کسی تاخیر کے اپ لوڈ کیا جائے۔
واضح رہے کہ 6 مئی کو سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں کے کیس میں نظرثانی درخواستوں کی سماعت کے لیے فیصلہ کیا تھا۔ اس کیس میں جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے ایک اہم اختلاف کیا تھا، جس کے نتیجے میں انہوں نے نظرثانی درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دیا۔
یہ واقعہ سپریم کورٹ کے اندرونی نظام میں ایک سنجیدہ سوال اٹھاتا ہے۔ اگرچہ عدلیہ کی آزادی اور فیصلوں کی شفافیت انتہائی اہمیت کی حامل ہیں، لیکن اس طرح کی غفلت سے نہ صرف عدلیہ کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے بلکہ عوامی سطح پر بھی سوالات اٹھتے ہیں کہ ادارے آپس میں کس حد تک ہم آہنگ ہیں۔ خاص طور پر آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے اس قسم کی غفلت کی روک تھام کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے تاکہ سپریم کورٹ کے فیصلے بروقت عوام تک پہنچ سکیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے اپنے خط میں چیف جسٹس سے یہ درخواست کی ہے کہ اس معاملے کی فوری مداخلت کی جائے تاکہ عدالت کے فیصلوں کی شفافیت اور جلدی تک رسائی یقینی بنائی جا سکے۔ یہ واقعہ سپریم کورٹ میں اداروں کی داخلی ہم آہنگی اور سروسز کی فراہمی کے حوالے سے ایک اہم سبق فراہم کرتا ہے، خاص طور پر جب ملک کے سب سے اہم اور اعلیٰ ترین عدالت میں ایسا معاملہ سامنے آتا ہے