اسلام آباد/نئی دہلی:پاکستان اور بھارت کے ڈائریکٹر جنرلز ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم اوز) کے درمیان ٹیلیفون پر رابطہ ہوا ہے، جس میں دونوں ممالک کے درمیان سیز فائر کی صورتحال پر بات چیت کی گئی۔ اس اہم بات چیت میں نہ صرف سرحدی کشیدگی کم کرنے کی کوششیں کی گئیں بلکہ دونوں اطراف نے ایک دوسرے کے ساتھ اعتماد کے بڑھتے تعلقات کا امکان بھی ظاہر کیا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق، بھارتی ڈی جی ایم او، لیفٹیننٹ جنرل راجیو گھئی اور پاکستان کے میجر جنرل کاشف عبداللہ کے درمیان ہاٹ لائن پر یہ بات چیت ہوئی، جس میں سیز فائر کے حوالے سے بات کی گئی۔ اس سے قبل 6 اور 7 مئی کی درمیانی شب بھارت کی جانب سے پاکستان پر میزائل حملہ کیا گیا تھا، جس پر پاکستان نے فوری طور پر جوابی کارروائی کی تھی اور دشمن کے 5 جہاز گرا دیے تھے۔
بھارت نے اپنے حملے کے بعد اشتعال انگیزی کا سلسلہ جاری رکھا، جس کے جواب میں پاکستان کی مسلح افواج نے 10 مئی کی صبح ‘بنیان مرصوص’ آپریشن لانچ کیا، اور بھارتی سرحد میں گھس کر فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچایا۔ اس تمام تر کشیدگی کے دوران، امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی میدان میں آئے اور دونوں ممالک کے درمیان سیز فائر کی راہ ہموار کی۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان اس سیز فائر کے بعد، پاکستان کے ڈی جی آئی ایس پی آر، لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے پریس بریفنگ دیتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان نے سیز فائر کا کوئی مطالبہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ خواہش بھارت کی طرف سے سامنے آئی تھی۔
دوسری طرف وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ بھارت کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں پانی، دہشت گردی، اور مسئلہ کشمیر پر بات چیت کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے باوجود یہ بات چیت ان مسائل کے حل کے لیے ایک سنجیدہ قدم ہے، جس کا اثر نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورے خطے پر پڑے گا۔
یہ بات چیت اور سیز فائر کی بحالی ایک مثبت قدم ہے، جس سے دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ کشیدگی کو کم کرنے کی ممکنہ راہیں کھل سکتی ہیں۔ اگرچہ اس کشیدگی میں کمی کے آثار نظر آ رہے ہیں، لیکن اس کے مکمل حل کے لیے مزید مذاکرات اور اعتماد سازی کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، بھارتی اور پاکستانی عوام دونوں ہی اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ آیا یہ سیز فائر صرف وقتی طور پر برقرار رہتا ہے یا دونوں ممالک کی قیادت اس سے آگے بڑھ کر زیادہ دیرپا امن کی طرف قدم اٹھائے گی۔