پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کے ساتھ اپنے توسیعی فنڈ سہولت (EFF) پروگرام کے تحت ایک اور اہم سنگِ میل عبور کر لیا ہے۔
بدھ کے روز پاکستان کو ایک ارب 2 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کی قسط موصول ہو گئی ہے، جس کی باقاعدہ تصدیق اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کی ہے۔ یہ رقم 13 مئی کو قومی خزانے میں شامل ہوئی اور 16 مئی کو ختم ہونے والے ہفتے کے زرمبادلہ ذخائر میں اس کا باقاعدہ اندراج کر دیا جائے گا۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب بھارت نے آئی ایم ایف پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی کہ پاکستان کو قرضے کی نئی قسط جاری نہ کی جائے۔ بھارتی حکومت کا دعویٰ تھا کہ یہ فنڈز مبینہ طور پر سرحد پار دہشت گردی میں استعمال ہو سکتے ہیں۔ تاہم، پاکستان کے مشیر خزانہ خرم شہزاد نے بھارت کی ان کوششوں کو بے بنیاد اور سیاسی قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان کا آئی ایم ایف پروگرام مکمل طور پر آن ٹریک ہے اور عالمی مالیاتی ادارہ کسی سیاسی دباؤ میں آئے بغیر اپنے فیصلے کر رہا ہے۔
نو مئی 2025 کو آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کے لیے پہلے جائزے کی منظوری دی، جس کے بعد یہ قسط جاری کی گئی۔ اس قسط کے ساتھ ہی اب تک پاکستان کو سات ارب ڈالر کے پیکج میں سے دو اقساط موصول ہو چکی ہیں۔ پہلی قسط 27 ستمبر کو ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی صورت میں موصول ہوئی تھی، جبکہ آئی ایم ایف نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے بھی پاکستان کے لیے 30 کروڑ ڈالر کی اضافی رقم منظور کی ہے۔
یہ پیش رفت پاکستان کی اقتصادی بحالی کے سفر میں ایک مثبت اشارہ ہے۔ 2023 میں جب ملک دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کھڑا تھا، آئی ایم ایف کے اسی بیل آؤٹ نے معیشت کو سہارا دیا، جس کے بعد مہنگائی میں کمی، زرمبادلہ ذخائر میں اضافہ اور مالیاتی شعبے میں استحکام دیکھنے میں آیا۔
تاہم، اس مالیاتی پیکج کی قیمت بھی ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق، پاکستان کو آمدنی پر ٹیکس بڑھانا پڑا، توانائی پر سبسڈی ختم کرنی پڑی، اور سرکاری اخراجات میں کمی کرنی پڑی ایسے فیصلے جو عوام پر بوجھ ضرور بنے لیکن مالیاتی نظم و ضبط کے لیے ناگزیر سمجھے گئے۔
یہ معاہدہ پاکستان کا 1958 کے بعد آئی ایم ایف کے ساتھ 24واں معاہدہ ہے، جو نہ صرف ایک مالی سہارے کا ذریعہ ہے بلکہ بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی میں بھی مددگار ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے مہینوں میں حکومت کس حد تک معاشی اصلاحات کو مستقل بنیادوں پر لاگو کرتی ہے، اور کیا یہ بیل آؤٹ واقعی معیشت کی بنیادیں مضبوط کر سکے گا، یا ہم دوبارہ کسی نئے بیل آؤٹ کی راہ دیکھ رہے ہوں گے