اسلام آباد میں منعقد ہونے والی ایک نہایت اہم تقریب، جسے یومِ تشکر کا نام دیا گیا، اس لحاظ سے ایک تاریخی موقع تھا کہ یہ حالیہ پاک-بھارت کشیدگی کے بعد پہلی بار پاکستان کی جانب سے سفارتی اور عسکری کامیابی پر کھلے عام اظہارِ تشکر تھا۔
اس تقریب میں اعلیٰ حکومتی و عسکری شخصیات نے شرکت کی، اور وزیراعظم شہباز شریف نے ایک جذباتی اور بصیرت افروز خطاب کیا جس میں نہ صرف موجودہ صورت حال کی گہرائیوں پر روشنی ڈالی گئی بلکہ مستقبل کے لیے قوم کو ایک واضح پیغام بھی دیا گیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ یہ وقت ہے کہ ہم ان تمام دوست اور برادر ممالک کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کریں جنہوں نے اس بحران کے دوران پاکستان کا ساتھ دیا، امن کو فروغ دیا اور خطے کو ایک ممکنہ تباہ کن جنگ سے بچایا۔
ان کا کہنا تھا کہ خلیج کے اہم ممالک جیسے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، ایران، کویت، ترکیہ اور ہمارے قابلِ اعتماد دوست چین نے جس طرح اس نازک موقع پر پاکستان کے مؤقف کو تسلیم کیا اور سفارتی تعاون فراہم کیا، وہ ناقابلِ فراموش ہے۔

وزیراعظم نے خاص طور پر امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا نام لیا، اور ان کی قیادت کو سراہتے ہوئے کہا کہ اگر ان کی دور اندیشی اور قیادت نہ ہوتی تو شاید آج جنوبی ایشیا کسی بڑے سانحے کا شکار ہو چکا ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے جس طرح بروقت مداخلت کی، اقوامِ متحدہ میں مؤثر سفارتکاری کی، اور براہِ راست قیادت کا مظاہرہ کرتے ہوئے امن کی بحالی میں کلیدی کردار ادا کیا، وہ قابلِ تحسین ہے۔
وزیراعظم نے 10 مئی کے اُس تاریخی لمحے کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ اس روز ایک ہنگامی اجلاس بلایا گیا، جس میں عسکری قیادت نے انڈیا کے اشتعال انگیز اور جارحانہ اقدامات کا تفصیل سے جائزہ لیا۔
دشمن کی طرف سے کی گئی بلااشتعال کارروائیوں کے بعد یہ طے پایا کہ پاکستان خاموش تماشائی نہیں بنے گا، اور مناسب وقت پر مؤثر جواب دیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے پہلے روز سے ہی عالمی برادری کو یہ تجویز دی تھی کہ ایک غیرجانبدار تحقیقاتی کمیشن بنایا جائے جو ان ہلاکتوں اور حملوں کے حقائق کی چھان بین کرے، مگر بھارت نے تکبر اور غرور میں آ کر اس سنجیدہ پیشکش کو رد کیا، اور بجائے شواہد فراہم کرنے کے، جنگی جنون میں اندھا ہو کر حملہ کر دیا۔
وزیراعظم نے اس موقع پر اپنی قوم سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ دشمن نے سمجھا کہ شاید پاکستان کے تحمل کو کمزوری سمجھا جائے گا، لیکن انہوں نے اس غلط فہمی کی بہت بھاری قیمت چکائی۔
پاکستانی فضائیہ نے صرف دشمن کے چھ جنگی طیارے تباہ نہیں کیے بلکہ ان کا غرور بھی خاک میں ملا دیا۔ ایک ایسی قوت جو خود کو خطے کی سپر پاور سمجھتی تھی، وہ چند گھنٹوں میں بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئی۔
وزیراعظم نے انکشاف کیا کہ جب دشمن نے پاکستان کے حساس فضائی اڈوں کو نشانہ بنایا، تو رات تقریباً ڈھائی بجے آرمی چیف نے براہِ راست انہیں فون کر کے صورت حال سے آگاہ کیا اور فوری جواب دینے کی اجازت طلب کی۔

اجازت دی گئی، اور چند ہی گھنٹوں میں پاکستانی شاہین دشمن کی فضاؤں میں پہنچ چکے تھے۔ پٹھان کوٹ، اودھم پور اور کئی دیگر اسٹریٹجک مقامات پر جوابی حملے کیے گئے جن کی منصوبہ بندی انتہائی خاموشی اور جدید ترین ٹیکنالوجی سے کی گئی تھی۔
وزیراعظم نے فخر سے کہا کہ ہماری ایئر فورس نے جس مہارت سے یہ کارروائیاں کیں، وہ پوری دنیا کے لیے حیرت کا باعث بن گئیں۔ ٹیکنالوجی، خاموشی، تیز رفتاری اور نشانے پر کاری ضرب کی وہ مثال پیش کی گئی جس نے دشمن کے تمام اندازے غلط ثابت کر دیے۔
دنیا بھر کے عسکری تجزیہ کار اس وقت پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کا ازسرِنو جائزہ لے رہے ہیں اور یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ پاکستان نے اتنی جلدی ایسی ٹیکنالوجی کیسے حاصل کی؟
اسی دوران، جب دشمن کی حالت نزع تک جا پہنچی، تو سیز فائر کی درخواست سامنے آئی۔ وزیراعظم نے کہا کہ جنرل عاصم منیر نے ان سے مشورہ کیا کہ اب دشمن پسپائی اختیار کر رہا ہے اور امن چاہتا ہے، تو پاکستان کو کیا ردعمل دینا چاہیے؟ وزیراعظم نے کہا: ہم امن کے داعی ہیں، جنگ ہمارا مقصد نہیں۔ اگر دشمن اب پیچھے ہٹنا چاہتا ہے تو ہم بھی اس کا خیرمقدم کرتے ہیں۔‘
شہباز شریف نے کہا کہ پاکستانی قوم کو اپنی فوج، اپنے پائلٹس اور اپنی عسکری قیادت پر فخر ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ آج پوری دنیا اس حقیقت کو تسلیم کر رہی ہے کہ پاکستان صرف امن کا خواہاں نہیں، بلکہ اپنی سالمیت کے تحفظ کی مکمل صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
انہوں نے اپنی تقریر کے اختتام پر کہا کہ آج کا دن ایک سنگ میل ہے۔ یہ صرف شکرانے کا دن نہیں، بلکہ اس عہدِ نو کا آغاز بھی ہے جس میں پاکستان ایک مضبوط، خوددار اور متحد ریاست کے طور پر اپنا سفر جاری رکھے گا۔ اب دنیا کی کوئی طاقت ہمارے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔
انہوں نے کہا:ہم نے دنیا کو بتا دیا ہے کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے، لیکن اگر ہماری خودمختاری، ہماری عوام یا ہماری سرزمین کو چیلنج کیا گیا تو ہم بھرپور طاقت سے جواب دیں گے۔ اب دشمن کو صرف ہمارے جذبات نہیں، ہماری صلاحیتوں کا بھی اندازہ ہو چکا ہے۔