اسلام آباد:جب سیاسی فضاء افواہوں کی گرد میں لپٹی ہو اور بیانیے کا شور ہر جانب گونج رہا ہو، تب اصل کہانی اکثر خاموشی میں چھپی ہوتی ہے۔ یہی کچھ آج کل تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ساتھ ہو رہا ہے۔ عوامی سطح پر استقامت کے دعوے، مگر پردے کے پیچھے خفیہ دروازے کھلنے کی سرگوشیاں ہورہی ہیں۔!
باوثوق ذرائع کےمطابق، پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ اور حکومت سے بیک چینل مذاکرات کی راہیں تلاش کی جا رہی ہیں، لیکن سب کچھ روشنی سے دور، خاموش راہداریوں میں حیرت انگیز طور پر، اس تمام تر سرگرمی کے باوجود پارٹی کے اندر شدید ابہام اور تقسیم پیدا ہو چکی ہے۔
سینئر قیادت میں کھلبلی اُس وقت مچی جب پارٹی چیئرمین گوہر علی خان کی جیل میں عمران خان سے ملاقات کے دوران، عمران کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے سب وکلا سے نجی بات چیت کے لیے کمرہ خالی کروایا۔ بعد ازاں، گوہر علی خان نے مبینہ طور پر سینئر رہنماؤں کو بتایا کہ عمران خان بیک چینل مذاکرات کے لیے آمادہ ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے سے ملاقات پر بھی تیار
لیکن جیسے ہی یہ خبر پارٹی کے اندر پھیلی، ردعمل کی گونج بھی بلند ہوئی سب سے بڑی تردید خود عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان کی جانب سے آئی، جنہوں نے ان خبروں کو گمراہ کن اور بے بنیاد قرار دیا۔
پی ٹی آئی کے ترجمان شیخ وقاص اکرم نے واضح الفاظ میں کہا
نہ کوئی بیک چینل رابطہ ہے، نہ کوئی خفیہ بات چیت۔ اڈیالہ جیل میں ملاقاتوں کا اختیار بھی عمران خان کے ہاتھ میں نہیں۔”
یہ بیانات اس بات کا عندیہ دیتے ہیں کہ پارٹی کے اندر دو متوازی بیانیے گردش کر رہے ہیں: ایک عوام کے سامنے مزاحمت کا علم بلند کیے ہوئے، دوسرا بند کمروں میں راہ نرمی ڈھونڈتا ہوا۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تحریک انصاف ایک ایسے موڑ پر کھڑی ہے جہاں اسے فیصلہ کرنا ہوگا
کیا وہ اصولی بیانیے کی سیاست کرے گی یا سیاسی حقیقت پسندی کو گلے لگائے گی
کیا بیک چینل رابطے پارٹی کی اجتماعی رائے سے ہیں یا چند افراد کی ذاتی حکمتِ عملی؟
کیا عمران خان واقعی مذاکرات کی میز پر آنے کو تیار ہیں، یا یہ سب محض ایک سیاسی اسموک اسکرین ہے؟
اس کہانی کا اگلا باب کیا ہوگا، یہ وقت ہی بتائے گا۔ مگر ایک بات طے ہے
تحریک انصاف اب ایک دوراہے پر کھڑی ہے، جہاں ہر قدم نہ صرف پارٹی کی سمت بلکہ ملکی سیاست کے مزاج کو بھی بدل سکتا ہے۔