پاکستان کی مسلح افواج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے ایک اہم انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ حالیہ پاک-بھارت کشیدگی کے دوران سعودی عرب نے ثالثی کا جو کردار ادا کیا، وہ نہایت مؤثر اور قابلِ ستائش تھا۔
ان کے مطابق، اگر مملکت سعودی عرب کی بروقت سفارتی مداخلت نہ ہوتی تو دونوں ہمسایہ جوہری طاقتوں کے درمیان یہ تنازع خطرناک صورت اختیار کر سکتا تھا۔
یہ صورتحال اس وقت سنگین ہوئی جب 7 مئی کو بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول کے قریب پاکستانی علاقوں پر میزائل حملے کیے گئے۔
بھارت کا دعویٰ تھا کہ اس کا ہدف عسکریت پسندوں کے مبینہ ٹھکانے تھے، مگر ان حملوں نے پاکستانی شہروں میں شدید تشویش کی لہر دوڑا دی۔ جواباً پاکستان نے بھی انڈین افواج کی تنصیبات کو نشانہ بنایا، جس سے دونوں ملک کھلے عام تصادم کے دہانے پر پہنچ گئے۔
اس تیزی سے بگڑتی صورت حال کے دوران 10 مئی کو بالآخر ایک جنگ بندی پر اتفاق ہوا۔ اس سمجھوتے کے پیچھے ایک فعال اور غیر معمولی سفارتی کوشش کارفرما تھی جس کی قیادت سعودی عرب نے کی۔
اس ضمن میں سعودی عرب کے وزیرِ مملکت برائے امورِ دفاع، عادل الجبیر نے اسلام آباد اور نئی دہلی دونوں کا ہنگامی دورہ کیا اور دونوں ممالک کی قیادت کے ساتھ اہم ملاقاتیں کیں۔
اس پس منظر میں لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے سعودی حکومت کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کا کردار اس پورے عمل میں مثبت، متوازن اور شاندار رہا۔
جس حکمت عملی اور نرمی کے ساتھ سعودی حکام نے دونوں ممالک کے بیچ بات چیت کا ماحول پیدا کیا، وہ لائقِ تحسین ہے۔
یہ سفارتی اقدام اس وقت اور بھی اہمیت اختیار کر گیا جب 22 اپریل کو بھارتی علاقے پہلگام میں ایک دہشتگرد حملے میں 26 افراد کی ہلاکت ہوئی۔ اس حملے نے نہ صرف بھارتی حکومت بلکہ پورے خطے کو ہلا کر رکھ دیا۔
اس واقعے کے فوراً بعد خطے میں کشیدگی تیزی سے بڑھنے لگی اور دونوں ممالک کے درمیان فوجی سطح پر تیاریوں میں تیزی آئی۔
مگر سعودی عرب کی مداخلت نے ایک ایسا موقع پیدا کیا جس نے نہ صرف ممکنہ جنگ کو ٹالا بلکہ دونوں ممالک کے درمیان وقتی مفاہمت کی راہ بھی ہموار کی۔
اس موقع پر دنیا کی بڑی طاقتوں نے بھی سعودی اقدام کو سراہا، لیکن خود پاکستان کی فوجی قیادت نے اس کا واضح الفاظ میں اعتراف کیا۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے مزید کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات صرف ریاستی سطح تک محدود نہیں بلکہ عوامی سطح پر بھی دونوں اقوام کے درمیان محبت اور بھائی چارہ پایا جاتا ہے۔
ہمارے تعلقات صرف سفارتی نہیں بلکہ روحانی، ثقافتی اور جذباتی نوعیت کے بھی ہیں۔ ہم سعودی عوام کو اپنے بھائی سمجھتے ہیں اور ان کے ساتھ ہمارا رشتہ عزت اور احترام پر مبنی ہے۔

انہوں نے کہا کہ افواجِ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہمیشہ سے ایک مضبوط اور قابلِ اعتماد رشتہ رہا ہے۔ چاہے معاملہ دفاع کا ہو، سٹریٹیجک تعاون کا یا انسانی ہمدردی کا، سعودی عرب نے ہر مرحلے پر پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ حالیہ برسوں میں، جب پاکستان کو اقتصادی مشکلات کا سامنا تھا، سعودی عرب نے بغیر کسی تاخیر یا شرط کے پاکستان کی مالی امداد کی، جس نے ملک کی معیشت کو سنبھالا دینے میں مدد دی۔
اس سب کے تناظر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ سعودی عرب صرف ایک دوست ملک نہیں بلکہ ایک ایسا برادر اسلامی ملک ہے جو ہر آزمائش میں پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا رہا ہے۔
سعودی قیادت کی اس حالیہ ثالثی نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ خطے میں امن اور استحکام کے لیے سعودی عرب کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔