نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ پاکستان اسحاق ڈار نے چین کے دارالحکومت بیجنگ کا تین روزہ سرکاری دورہ آج شروع کیا۔ یہ اہم دورہ چینی وزیر خارجہ وانگ ای کی خصوصی دعوت پر عمل میں لایا جا رہا ہے، اور اس کا مقصد دونوں برادر ممالک کے مابین مختلف شعبوں میں جاری تعاون کو مزید وسعت دینا اور حالیہ علاقائی کشیدگیوں کے تناظر میں قریبی مشاورت کو فروغ دینا ہے۔
اس دورے کی اہمیت اس لیے بھی دوچند ہو جاتی ہے کیونکہ یہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب حال ہی میں بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے علاقے پاہلگام میں پیش آنے والے ایک افسوسناک واقعے کے بعد سرحدی کشیدگی میں اچانک اضافہ ہوا تھا۔
بھارت کی جانب سے پاکستان پر دہشت گرد حملے کا الزام عائد کیا گیا، جس کے بعد محدود پیمانے پر میزائل حملے کیے گئے، جنہیں پاکستان نے جارحیت قرار دیتے ہوئے بھرپور دفاع کیا۔ ان حملوں کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان ایک بار پھر تناؤ کی فضا پیدا ہو گئی، تاہم چین نے کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا۔
چین نے سفارتی سطح پر پاکستان کے موقف کی تائید کی، اور واضح انداز میں بھارت کو متنبہ کیا کہ پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت پر حملے ناقابل برداشت ہوں گے۔
اس دوران چین نے نہ صرف سیاسی طور پر پاکستان کی پشت پناہی کی بلکہ دفاعی طور پر بھی بھرپور مدد فراہم کی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق چینی ساختہ جدید J-10C لڑاکا طیارے اور PL-15 میزائل سسٹم نے پاکستان کو بھارت کے جدید رافیل جنگی طیاروں کا سامنا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
ان حملوں کے دوران پاکستان نے چھ بھارتی جنگی طیاروں کو کامیابی سے مار گرایا، جن میں سے بعض کا تعلق جدید ترین فرانسیسی ساختہ بیڑے سے تھا۔
بیجنگ روانگی سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بتایا کہ حالیہ دنوں میں ان کی چینی ہم منصب وانگ ای سے دو مرتبہ ٹیلیفون پر تفصیلی بات چیت ہوئی ہے۔
ان گفتگوؤں میں نہ صرف پاک چین تعلقات پر بات ہوئی بلکہ حالیہ علاقائی صورتحال اور بھارتی الزامات کے پس منظر میں مشترکہ حکمت عملی پر بھی مشورہ کیا گیا۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ یہ دورہ نہایت اہم ہے کیونکہ اس کے ذریعے ہم چین کے ساتھ اپنی اسٹریٹجک شراکت داری کو مزید مضبوط کرنے جا رہے ہیں، خصوصاً ایسے وقت میں جب خطے کو عدم استحکام کا سامنا ہے۔
دفتر خارجہ کے مطابق، اس دورے کے دوران اسحاق ڈار کی چینی قیادت سے ملاقاتوں میں مختلف امور زیر بحث آئیں گے، جن میں جنوبی ایشیا کی موجودہ صورتحال، عالمی سکیورٹی کے چیلنجز، پاک چین اقتصادی راہداری (CPEC) میں پیش رفت، دوطرفہ تجارت، اور دفاعی تعاون شامل ہیں۔
دونوں ممالک اس بات کا اعادہ کریں گے کہ پاک چین دوستی کسی مخصوص وقت یا حالات کی محتاج نہیں بلکہ ہر آزمائش پر پوری اترنے والی مستقل شراکت داری ہے۔
اس موقع پر ایک اعلیٰ سطحی وفد بھی اسحاق ڈار کے ہمراہ ہے، جس میں وزارت خارجہ، اقتصادی امور، دفاع اور توانائی کے شعبوں کے سینئر افسران شامل ہیں۔
ان ملاقاتوں میں متعدد یادداشتوں پر دستخط کی توقع ہے جن کا تعلق اقتصادی ترقی، توانائی، زراعت، صنعتی تعاون اور ٹیکنالوجی کے تبادلے سے ہو گا۔
اسحاق ڈار نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ بھارت بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اور ایسے الزامات لگا رہا ہے جو جھوٹ اور گمراہ کن ہیں، مثلاً جوہری تنصیبات پر حملوں سے متعلق بے بنیاد دعوے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا حالیہ بین الاقوامی دوروں میں متعدد وزرائے خارجہ سے رابطہ ہوا ہے، جنہیں پاکستان کے موقف سے آگاہ کیا گیا ہے اور بھارت کے پروپیگنڈے کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان کے مطابق، بیجنگ میں ہونے والی ملاقاتوں میں اس بات کا بھی جائزہ لیا جائے گا کہ بھارت کی حالیہ پالیسیوں اور بیانات سے جنوبی ایشیا کے امن و استحکام پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، اور چین کس طرح پاکستان کے ساتھ مل کر خطے میں توازن اور امن کو یقینی بنا سکتا ہے۔
دونوں ممالک کی قیادت اس بات پر بھی غور کرے گی کہ کس طرح بین الاقوامی اداروں کے پلیٹ فارمز پر مشترکہ مؤقف اختیار کیا جا سکتا ہے تاکہ خطے میں طاقت کا عدم توازن پیدا نہ ہونے پائے۔
دورے کے اختتام پر ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیے جانے کی توقع ہے، جس میں دونوں ممالک کی جانب سے علاقائی امن، دوطرفہ دوستی اور عالمی انصاف کی حمایت کا اعادہ کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں میں تیز رفتاری لانے کے لیے نئے اہداف کا اعلان بھی متوقع ہے۔