اسلام آباد: پاک بھارت کشیدگی کے پس منظر میں ایک غیر معمولی سفری اور سیکیورٹی معمہ سامنے آیا ہے۔ فرانس کی قومی فضائی کمپنی "ائیر فرانس” پاکستان کی فضائی حدود کے استعمال سے مسلسل گریز کر رہی ہے، حالانکہ خطے کی دیگر بین الاقوامی ائیر لائنز نے معمول کی پروازیں بحال کر دی ہیں۔ اس طرز عمل نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے: کیا ائیر فرانس اب بھی رافیل طیاروں کی تباہی کا دکھ سینے سے لگائے بیٹھی ہے؟ یا سیکیورٹی خدشات ابھی باقی ہیں؟
ائیر فرانس کی دہلی، ممبئی، بنگلور اور احمد آباد جانے والی پروازیں پاکستان کی فضائی حدود سے اجتناب کرتے ہوئے طویل راستہ اختیار کر رہی ہیں، جس سے نہ صرف پرواز کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے بلکہ ایندھن کے لاکھوں ڈالرز کے اضافی اخراجات بھی برداشت کرنا پڑ رہے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر، ائیر فرانس کی دیگر بین الاقوامی پروازیں بھی پاکستان کی فضائی حدود سے گریز کر رہی ہیں، جو ایک سوچی سمجھی پالیسی کا عندیہ دیتی ہے۔
دوسری ائیر لائنز نے بحال کر دیا ہے اوور فلائنگ جبکہ پاکستان ایئرپورٹ اتھارٹی کے ذرائع کے مطابق، حالیہ سیزفائر اور کشیدگی میں کمی کے بعد سوئس ائیر، لفتھانزا، برٹش ایئرویز، امارات، اتحاد اور دیگر بین الاقوامی ائیر لائنز نے پاکستانی فضائی حدود کا باقاعدہ استعمال دوبارہ شروع کر دیا ہے۔ یہ تمام پروازیں بھارت، بنگلہ دیش، نیپال اور دیگر ایشیائی ممالک کے لیے پاکستان کے اوپر سے گزر رہی ہیں۔
جہاں تمام عالمی فضائی کمپنیاں پاکستان کی محفوظ اور مختصر فضائی راہداری کو ترجیح دے رہی ہیں، وہیں ائیر فرانس کا مسلسل انکار کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ سفارتی اور دفاعی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ رافیل طیاروں کی تباہی کے بعد پیدا ہونے والی خجالت، یا پھر بھارت کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات، ائیر فرانس کے اس رویے کی ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں۔
ائیر فرانس کے اس فیصلے کا براہِ راست اثر مسافروں پر پڑ رہا ہے۔ طویل پروازیں، ایندھن کا اضافی خرچ اور وقت کا ضیاع نہ صرف کمپنی کے مالی وسائل پر بوجھ ہے بلکہ مسافروں کی سہولت اور اعتماد کو بھی متاثر کر رہا ہے۔
کیا پاکستان سے ناراضی اب بھی باقی ہے؟سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ جب دنیا کی معروف ترین فضائی کمپنیاں پاکستانی حدود کو محفوظ سمجھ کر استعمال کر رہی ہیں تو ائیر فرانس کی ہچکچاہٹ کیوں باقی ہے؟ کیا یہ تکنیکی معاملہ ہے یا پھر غیرعلانیہ سیاسی دباؤ؟
ائیر فرانس کا پاکستان کی فضائی حدود سے مسلسل اجتناب ایک خاموش پیغام اور ممکنہ پالیسی کا اظہار ہے۔ یہ رویہ نہ صرف فضائی سفارتکاری پر اثرانداز ہو رہا ہے بلکہ خطے میں امن کے بعد بھی پیدا ہونے والی شکوک و شبہات کی گنجائش کو باقی رکھے ہوئے ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ائیر فرانس جلد ہی حقیقت کو تسلیم کرکے اپنی فضائی حکمت عملی پر نظرثانی کرے گی یا طویل راستوں پر مہنگی پروازیں اس کی مستقل پہچان بن جائیں گی؟