یقینی طور پر لاہور جیسے بڑے شہر میں بڑھتی ہوئی ٹریفک خلاف ورزیاں اور ان کے نتیجے میں ہونے والے حادثات اب ایک سنجیدہ مسئلہ بن چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سٹی ٹریفک پولیس لاہور نے چند انتہائی خطرناک اور معمول بن چکی خلاف ورزیوں پر قابو پانے کے لیے سخت ترین اقدامات کا فیصلہ کیا ہے۔
چیف ٹریفک آفیسر ڈاکٹر اطہر وحید نے واضح کیا ہے کہ اب ان پانچ سنگین خلاف ورزیوں پر محض جرمانہ کافی نہیں ہوگا بلکہ ان افراد کے خلاف باقاعدہ فوجداری مقدمات درج کیے جائیں گے۔
یہ پانچ خلاف ورزیاں درج ذیل ہیں: ون وے کی خلاف ورزی، غیر رجسٹرڈ موٹرسائیکل رکشوں کا چلانا، گاڑیوں پر ناجائز طور پر بڑے ڈھانچے نصب کرنا، اوورلوڈنگ، اور سب سے اہم کم عمر افراد کی ڈرائیونگ۔
ان اقدامات کے آغاز کے صرف ایک روز بعد ہی پولیس نے شہر بھر سے 536 افراد کے خلاف مقدمات قائم کیے، جن میں سے سب سے زیادہ یعنی 232 کیسز ون وے کی خلاف ورزی سے متعلق تھے۔
ترجمان ٹریفک پولیس حسنین رشید کے مطابق اب تک تقریباً ساڑھے تین ہزار سے زائد مقدمات درج ہو چکے ہیں، جن کی بڑی تعداد ون وے اور اوورلوڈنگ کے زمرے میں آتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ کوئی نئی خلاف ورزیاں نہیں بلکہ ایسی حرکات ہیں جو شہریوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالتی ہیں۔ مثلاً بعض گاڑیوں سے 20 سے 30 فٹ لمبی لوہے کی سلاخیں باہر نکلی ہوتی ہیں جو حادثات کا باعث بن سکتی ہیں۔
یہ فیصلے اس وقت کیے گئے جب حالیہ ہفتوں میں شہر میں چند خطرناک حادثات پیش آئے، جن میں ایک ڈمپر اور ایک کار کے نہر میں گرنے جیسے واقعات نے عوامی تحفظ پر سنجیدہ سوالات اٹھا دیے۔
ٹریفک پولیس کے مطابق ایسی گاڑیاں جن میں غیر قانونی طور پر بنائے گئے ڈھانچے نصب ہوں، اب نہ صرف چالان کا سامنا کریں گی بلکہ ان کے مالکان کے خلاف مقدمات درج کر کے گاڑیوں کو ضبط کیا جائے گا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اوورلوڈنگ اور ایسی گاڑیاں جن کے دائیں بائیں سے سڑک نظر نہیں آتی، شہریوں کے لیے شدید خطرہ ہیں۔ پولیس نے حال ہی میں ایسی ایک فیکٹری کو سیل بھی کیا ہے جو غیر قانونی ڈھانچے تیار کرتی تھی۔
کم عمر ڈرائیوروں کے خلاف سخت رویہ اختیار کرتے ہوئے سی ٹی او ڈاکٹر اطہر وحید نے کہا کہ ایسے نوجوان نہ صرف اپنی بلکہ دوسروں کی زندگیاں بھی خطرے میں ڈالتے ہیں، اور ان کے لیے کسی نرمی کی گنجائش نہیں چھوڑی جائے گی۔
پولیس ایسے نوجوانوں کے والدین کو طلب کر کے ان سے تحریری حلف بھی لے رہی ہے تاکہ آئندہ وہ اپنے بچوں کو بغیر لائسنس ڈرائیونگ نہ کرنے دیں۔
تاہم دوسری جانب، لاہور ہائی کورٹ کے وکیل مدثر چوہدری نے اس حکمت عملی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے کم عمر ڈرائیوروں کے مستقبل کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔
ان کے مطابق ایف آئی آر کے اندراج سے ان بچوں کا مجرمانہ ریکارڈ بن جائے گا، جو ان کے تعلیمی اور پیشہ ورانہ مستقبل پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔ انہوں نے تجویز دی ہے کہ جرمانے کی رقم بڑھا دی جائے، لیکن ایف آئی آرز کے ذریعے بچوں کو سزا نہ دی جائے۔
مدثر چوہدری نے اس فیصلے کے خلاف چیف ٹریفک آفیسر کو باقاعدہ قانونی نوٹس بھی بھجوایا ہے اور کہا ہے کہ اگر اس پر نظرثانی نہ کی گئی تو وہ اسے لاہور ہائی کورٹ اور ضرورت پڑنے پر سپریم کورٹ میں بھی چیلنج کریں گے۔
دوسری جانب ٹریفک پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کا مقصد خوف پیدا کرنا نہیں بلکہ حادثات میں کمی لانا ہے۔
ان کے مطابق پولیس پچھلے 20 برسوں سے تعلیمی مہمات چلا رہی ہے، جن میں اسکولوں، کالجوں، فیکٹریوں، مساجد اور سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو قوانین سے آگاہ کیا جا رہا ہے۔ لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ قانون پر عملدرآمد سختی سے کرایا جائے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی اب صرف ایک سماجی مسئلہ نہیں رہا، بلکہ شہری سلامتی کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔
شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے لیے یہ اقدامات ناگزیر ہیں، اور والدین سمیت پوری کمیونٹی کو اس میں پولیس کا ساتھ دینا ہوگا۔