اسلام آباد: پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان آئندہ مالی سال 2025-26 کے بجٹ پر مکمل اتفاق رائے نہ ہو سکا، تاہم دونوں فریقین نے مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کر لیا ہے، جس سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ پاکستان کی معاشی سمت کا فیصلہ کن لمحہ آن پہنچا ہے۔
آئی ایم ایف وفد، جس کی قیادت نیتھن پورٹر کر رہے تھے، نے 19 مئی سے پاکستان کا دورہ کیا اور معاشی صورتحال، موجودہ قرض پروگرام پر عمل درآمد، اور آئندہ بجٹ پر تفصیلی بات چیت کی۔ وفد کے دورے کے اختتام پر جاری اعلامیہ میں مذاکرات کو تعمیری اور مثبت قرار دیا گیا، اور بتایا گیا کہ آنے والے دنوں میں بجٹ اہداف پر بات چیت کا سلسلہ جاری رہے گا۔
اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان نے آئندہ مالی سال میں مالیاتی نظم و ضبط برقرار رکھنے اور سماجی تحفظ پر اخراجات کے تسلسل کا اعادہ کیا۔ فریقین نے پرائمری سرپلس کو جی ڈی پی کے 1.6 فیصد تک لانے پر اتفاق کیا۔ اس کے علاوہ، ٹیکس نیٹ کو بڑھانے، محصولات میں اضافے، اور اخراجات کو ترجیحی بنیادوں پر منظم کرنے جیسے اہم نکات زیرِ بحث آئے۔
توانائی کے شعبے میں اصلاحات پر بھی بات ہوئی، جہاں آئی ایم ایف نے بجلی کی پیداواری لاگت کو کم کرنے اور شعبے میں مالی شفافیت کی ضرورت پر زور دیا۔ مزید برآں، مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے سخت مانیٹری پالیسی جاری رکھنے، اور اسے 5 سے 7 فیصد کی سطح پر لانے کی حکمت عملی پر بھی اتفاق ہوا۔
اعلامیہ میں اس بات کی بھی تصدیق کی گئی کہ آئی ایم ایف نے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے اور فاریکس مارکیٹ کو مزید فعال بنانے پر زور دیا ہے، جبکہ شرحِ تبادلہ میں لچک برقرار رکھنے کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا۔
حکومتی ذرائع کے مطابق پاکستان نے تنخواہ دار طبقے، رئیل اسٹیٹ، اور دیگر معاشی شعبوں کے لیے ٹیکس رعایتیں دینے کی خواہش کا اظہار کیا۔ تاہم، آئی ایم ایف نے ان رعایتوں کو مشروط قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ صرف ٹھوس ڈیٹا اور حکمتِ عملی کی بنیاد پر فیصلہ کرے گا۔
ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے صوبوں کے اخراجات میں کمی اور آمدن میں اضافہ کرنے پر زور دیا ہے، خاص طور پر زرعی آمدنی پر ٹیکس کے نفاذ کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا ہے، جو ایک طویل عرصے سے پاکستانی مالیاتی نظام میں ایک کمزور کڑی رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان آئی ایم ایف کی شرائط کو تسلیم کرتا ہے تو یہ بجٹ مہنگائی سے متاثرہ عوام کے لیے مزید مشکلات لا سکتا ہے، تاہم معاشی استحکام کی منزل کی جانب بڑھنے کا ایک اہم زینہ بھی بن سکتا ہے۔ حکومت کو اب ایک نازک توازن برقرار رکھنا ہے: عوامی ریلیف اور مالیاتی استحکام کے درمیان۔
اعلامیہ کے مطابق موجودہ قرض پروگرام اور کلائمٹ فنانسنگ پر اگلا جائزہ 2025 کی دوسری ششماہی میں متوقع ہے، جو مستقبل کے مالیاتی فیصلوں اور ممکنہ پیکج کی راہ متعین کرے گا۔
یہ بات واضح ہے کہ پاکستان کے معاشی مستقبل کا انحصار صرف فیصلوں پر نہیں، بلکہ ان فیصلوں پر عملدرآمد کی رفتار اور شفافیت پر ہوگا۔