اسلام آباد: قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان کی سیاسی قسمت خطرے میں پڑ گئی ہے، جب اسپیکر قومی اسمبلی سردار صادق نے ان کی نااہلی کا ریفرنس الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کو بھجوا دیا ہے۔ ریفرنس کی بنیاد 2024 کے عام انتخابات میں این اے 18 (ہری پور) سے شکست کھانے والے سابق ایم این اے بابر نواز کی جانب سے دائر درخواست ہے، جو عمر ایوب سے 82 ہزار ووٹوں سے ہارے تھے۔
ای سی پی نے فوری ایکشن لیتے ہوئے ریفرنس کی ابتدائی سماعت 4 جون کو مقرر کر دی ہے اور عمر ایوب سمیت بابر نواز کو بھی نوٹس جاری کر دیے گئے ہیں۔ اسی دن ای سی پی بابر نواز کی جانب سے انتخابی دھاندلی کے الزام پر دائر کی گئی ایک اور درخواست پر بھی دوبارہ سماعت کرے گا۔
درخواست میں بابر نواز نے دعویٰ کیا ہے کہ پی ٹی آئی رہنما عمر ایوب مالی بدعنوانی اور الیکشن کمیشن کو جمع کرائے گئے حلف نامے میں جھوٹ بولنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ حیران کن طور پر، بابر نواز نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ خود عمر ایوب نے 9 فروری کو مبینہ انتخابی دھاندلی کی شکایت درج کرائی تھی۔
تاہم، پی ٹی آئی نے اس دعوے کو سختی سے مسترد کر دیا ہے، اور ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی خط نہ پارٹی نے لکھا، نہ سرکاری ریکارڈ میں موجود ہے، اور نہ ہی متعلقہ ڈی آر او کو موصول ہوا۔ پارٹی ذرائع نے یہ بھی واضح کیا کہ بابر نواز اپنی شکست کو پہلے ہی کھلے دل سے قبول کر چکے ہیں، سوشل میڈیا پر عمر ایوب کو مبارکباد دے چکے ہیں، اور اب اچانک منظرنامہ بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بابر نواز نے قانونی طور پر درخواست دائر کرنے کی ڈیڈ لائن (17 اپریل) گزرنے کے 24 دن بعد یعنی 11 مئی کو اپنی عرضی ای سی پی میں جمع کرائی، جس پر پی ٹی آئی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک اور مثال ہے کہ کس طرح ریاستی ادارے مخصوص سیاسی جماعت کو نشانہ بنانے کے لیے متحرک ہو چکے ہیں۔
یاد رہے کہ 18 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بابر نواز کی دھاندلی سے متعلق درخواست پر ای سی پی کو تحقیقات جاری رکھنے کی اجازت دے دی تھی، جس کے بعد عمر ایوب کی اسٹے آرڈر حاصل کرنے کی کوشش ناکام ہو گئی۔ بعد ازاں، پی ٹی آئی رہنما نے 23 اپریل کو سپریم کورٹ میں ای سی پی کے دائرہ اختیار کو چیلنج کر دیا، مؤقف اختیار کیا کہ بابر نواز کی قانونی مدت گزر چکی ہے، اس لیے ای سی پی اب کارروائی کا مجاز نہیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ محض ایک الیکشن ریفرنس نہیں، بلکہ ایک بڑے سیاسی تصادم کا آغاز ہو سکتا ہے۔ ایوان زیریں میں حزبِ اختلاف کے قائد کے خلاف نااہلی کی کارروائی ملکی سیاسی منظرنامے کو ایک بار پھر بھڑکا سکتی ہے، اور یہ سوال شدت اختیار کر رہا ہے: کیا یہ انصاف کی جنگ ہے یا سیاسی انتقام کا تسلسل؟