امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک تازہ بیان میں اس بات پر زور دیا ہے کہ اگر جنوبی ایشیا کے دو بڑے ممالک، پاکستان اور بھارت، کسی جنگ میں الجھ جاتے ہیں تو امریکہ ایسے حالات میں ان کے ساتھ تجارتی معاہدے کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے ملکوں سے تجارتی تعلقات رکھنا ممکن نہیں جو بیک وقت ایک دوسرے پر گولیاں چلا رہے ہوں اور ایٹمی ہتھیاروں کے دہانے پر کھڑے ہوں۔
ٹرمپ نے اس بات کا انکشاف بھی کیا کہ پاکستان کا ایک اعلیٰ سطحی وفد آئندہ ہفتے امریکہ کا دورہ کرے گا، جس کا مقصد تجارتی محصولات سے متعلق امور پر بات چیت کرنا ہے۔
انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ پاکستان کو اس وقت امریکہ کے ساتھ تین ارب ڈالر کے تجارتی سرپلس کی وجہ سے اپنی برآمدات پر ممکنہ طور پر 29 فیصد ٹیرف کا سامنا ہے۔
صدر ٹرمپ نے یہ بھی واضح کیا کہ امریکہ بھارت کے ساتھ ایک جامع تجارتی معاہدے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ ان کے مطابق بھارتی وزیر تجارت پیوش گویال نے حال ہی میں واشنگٹن کا دورہ کرکے مذاکراتی عمل کو تیز کیا ہے، کیونکہ بھارت کو بھی امریکہ کی جانب سے 26 فیصد ٹیرف کے خطرے کا سامنا ہے۔
ٹرمپ نے میڈیا سے گفتگو میں یہ دعویٰ بھی کیا کہ ان کی انتظامیہ نے پاکستان اور بھارت کو جنگ سے روکنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ تنازع اگر جاری رہتا تو کسی بڑی ایٹمی تباہی میں بدل سکتا تھا، لیکن دونوں ممالک کے رہنماؤں نے دانشمندی کا مظاہرہ کیا اور مذاکرات کی راہ اپنائی۔
صدر ٹرمپ نے اس موقع پر سعودی عرب، ترکیہ اور اپنی انتظامیہ کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے اس امن کوشش میں کلیدی کردار ادا کیا۔
یاد رہے کہ حالیہ کشیدگی کے دوران بھارت نے پاکستان کے مختلف علاقوں کو نشانہ بنایا تھا، جس کے جواب میں پاکستان نے بھی بھارت کے اندر کئی مقامات پر جوابی کارروائیاں کی تھیں۔
بعد ازاں، بین الاقوامی سفارتی کوششوں کے نتیجے میں دونوں ممالک نے باقاعدہ جنگ بندی کا اعلان کیا۔ صدر ٹرمپ نے 10 مئی کو اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر اس بات کا اعلان کیا کہ پاکستان اور بھارت سیز فائر پر متفق ہو گئے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے یہ انکشاف بھی کیا کہ جنگ بندی کی راہ ہموار کرنے کے لیے انہوں نے دونوں ممالک کو تجارتی ترغیب دی تھی۔ ان کے بقول، پہلے جب سیز فائر کا پیغام بھیجا گیا تو دونوں ممالک پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہیں تھے۔
لیکن جب امریکہ نے یہ پیغام دیا کہ جنگ روکنے کی صورت میں وہ بھرپور تجارتی تعلقات قائم کرنے پر تیار ہے، تو دونوں فریقین نے نرمی دکھائی۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں شاید ہی کسی نے تجارت کو امن قائم کرنے کے لیے اتنے مؤثر طریقے سے استعمال کیا ہو جتنا انہوں نے کیا۔
اس پوری صورتحال میں امریکی صدر نے بارہا اس بات پر زور دیا کہ امریکہ کے پاس دنیا کی سب سے طاقتور فوج ہے، اور وہ کسی سے بھی بہتر طریقے سے مقابلہ کر سکتا ہے، لیکن امریکہ کی خواہش ہے کہ مسائل کا حل جنگ کی بجائے سفارتکاری اور تجارت کے ذریعے نکلے۔