سنگاپور میں منعقد ہونے والے بین الاقوامی سکیورٹی فورم ’’شنگریلا ڈائیلاگ‘‘ کے موقع پر پاکستان کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو ایک تفصیلی انٹرویو میں پاک-بھارت کشیدگی کے بڑھتے ہوئے خدشات اور اس کے ممکنہ نتائج پر کھل کر گفتگو کی۔
انہوں نے اپنی بات کا آغاز اس تشویشناک حقیقت سے کیا کہ جنوبی ایشیا میں مستقبل میں ہونے والی کسی بھی ممکنہ جنگ کا دائرہ صرف متنازعہ کشمیر تک محدود نہیں رہے گا۔
ان کے مطابق:ماضی میں جو کچھ ہوا، وہ شاید آئندہ کے مقابلے میں کم شدت کا تھا۔ اب اگر کسی بھی نوعیت کی جنگ چھڑی تو وہ ایک مخصوص جغرافیے میں قید نہیں رہے گی بلکہ پورے پاکستان اور پورے انڈیا تک پھیل سکتی ہے، اور یہی وہ عنصر ہے جو اس کو خطرناک ترین بناتا ہے۔
جنرل شمشاد مرزا نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان اور بھارت جیسے جوہری صلاحیت کے حامل دو ملکوں کے درمیان بحرانوں سے نمٹنے کے لیے مؤثر سفارتی یا عسکری رابطہ کاری کا کوئی واضح اور قابلِ اعتماد طریقہ کار موجود نہیں۔
ان کے مطابق:اگر آئندہ دونوں ممالک کے درمیان کوئی بڑا بحران پیدا ہوا تو ممکنہ طور پر عالمی برادری کو مداخلت کے لیے مناسب وقت ہی میسر نہ آ سکے گا، کیونکہ کشیدگی بہت تیزی سے نقصان دہ مرحلے میں داخل ہو سکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ:یہ بات تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ایسے تنازعات کا حل صرف بات چیت اور رابطے کے ذریعے نکالا جا سکتا ہے، نہ کہ میدانِ جنگ میں۔ فوجی محاذ آرائی کسی بھی مسئلے کا مستقل حل نہیں بن سکتی۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ حالیہ کشیدگی کے دوران جوہری اسلحہ کے استعمال کا کوئی اندیشہ تھا یا نہیں، تو جنرل شمشاد مرزا نے محتاط انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا:
اس بار حالات اس حد تک نہیں پہنچے، لیکن ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب کوئی بحران پیدا ہوتا ہے تو اس کے دوران کوئی بھی غلط اندازہ، کوئی بھی مِس کیلکولیشن، حالات کو نہایت خطرناک رخ پر ڈال سکتی ہے۔
انہوں نے خطے میں حالیہ فوجی تناؤ پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ دونوں ممالک نے سرحدوں پر موجود افواج کی تعداد میں کمی کا عمل شروع کر دیا ہے۔
ہم 22 اپریل سے پہلے والی پوزیشن پر تقریباً واپس آ چکے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں طرف کچھ حد تک حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
جنرل ساحر شمشاد مرزا کی گفتگو اس تناظر میں مزید اہم ہو جاتی ہے کہ انہوں نے واضح طور پر عالمی برادری کو متنبہ کیا ہے کہ اگلی جنگ اگر چھڑی تو شاید اقوامِ متحدہ یا دیگر بین الاقوامی اداروں کو مداخلت کرنے کا وقت بھی نہ مل سکے، اور حالات انسانی المیے میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔
دوسری طرف، بھارت کی وزارتِ دفاع اور انڈین چیف آف ڈیفنس سٹاف کے دفتر سے اس بیان پر ردعمل جاننے کی روئٹرز کی کوششیں تاحال بے نتیجہ رہی ہیں، اور انہوں نے کسی قسم کا تبصرہ فراہم نہیں کیا۔
یہ بیان نہ صرف جنوبی ایشیاء بلکہ عالمی سطح پر خطرے کی گھنٹی کے مترادف ہے، کیونکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی صورت میں کسی بھی محدود جنگ کے فوری طور پر وسیع پیمانے پر پھیلنے کا امکان خود ایک خوفناک منظرنامہ پیش کرتا ہے۔