پاکستان میں آئندہ مالی سال 2025-26 کے لیے وفاقی ترقیاتی بجٹ میں نمایاں کمی کا فیصلہ کیا گیا ہے، جس کا مقصد ملک کو درپیش شدید مالیاتی دباؤ، بڑھتے ہوئے قرضوں، اور آئی ایم ایف سے جاری سخت نوعیت کے مذاکرات کے دوران مالی نظم و ضبط کو برقرار رکھنا ہے۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق نئے مالی سال میں وفاقی ترقیاتی پروگرام (PSDP) کا حجم 1000 ارب روپے رکھا جا رہا ہے، جو رواں مالی سال کے نظرثانی شدہ بجٹ 1100 ارب روپے کے مقابلے میں 100 ارب روپے کم ہے۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پچھلے مالی سال کے دوران بھی بجٹ میں قابل ذکر کٹوتی کی گئی تھی۔
سال 2024-25 کے آغاز پر PSDP کا تخمینہ 1400 ارب روپے لگایا گیا تھا، مگر سال کے درمیان اسے کم کر کے 1100 ارب روپے کر دیا گیا۔
رواں مالی سال کے اختتام تک اندازہ ہے کہ حکومت 1096 ارب روپے خرچ کر لے گی، جو نظرثانی شدہ بجٹ کا تقریباً 99.6 فیصد بنتا ہے۔ لیکن اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ان فنڈز سے صرف 24 فیصد منصوبے مکمل یا جزوی طور پر مکمل ہو سکے ہیں۔
یہ صورتحال اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ زیادہ تر ترقیاتی منصوبے یا تو ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں یا ان پر کام کی رفتار بہت سست ہے۔ اسی تناظر میں ایک بھاری رقم، تقریباً 10 ہزار 216 ارب روپے کی لاگت کے منصوبے اب بھی زیر التوا ہیں، جنہیں آنے والے کئی برسوں میں مکمل کرنے کے لیے مزید فنڈنگ درکار ہو گی۔
ان زیر التوا منصوبوں کو سرکاری زبان میں ’تھرو فارورڈ‘ کہا جاتا ہے، اور یہ آئندہ حکومتوں کے لیے ایک بڑا مالی بوجھ بن کر سامنے آئیں گے۔
جہاں ایک طرف ترقیاتی فنڈز میں مجموعی کمی کی جا رہی ہے، وہیں اس کمی کا اثر کچھ نہایت اہم اور بنیادی شعبوں پر خاص طور پر محسوس کیا جائے گا۔ تعلیم، صحت، پانی، توانائی اور شہری منصوبہ بندی جیسے شعبے ان میں شامل ہیں۔
مثال کے طور پر صحت کے لیے مختص بجٹ کو 35 ارب روپے سے کم کر کے 22 ارب روپے کیا جا رہا ہے، جبکہ اعلیٰ تعلیم کے منصوبوں کے لیے رقم 83 ارب سے گھٹا کر 63 ارب روپے کی جا رہی ہے۔
اسی طرح پانی سے متعلق منصوبوں کے فنڈز میں بھی کٹوتی کی گئی ہے اور ان کے لیے بجٹ 135 ارب روپے سے کم کر کے 109 ارب روپے تجویز کیا گیا ہے۔ فزیکل پلاننگ اور ہاؤسنگ کے لیے مختص رقم میں بھی نمایاں کمی کی گئی ہے، جو اب 89 ارب کے بجائے 59 ارب روپے ہو گی۔
توانائی کے شعبے کا بجٹ بھی پچھلے سال کے 169 ارب روپے کے مقابلے میں کم کر کے 144 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت یا تو اس شعبے میں جاری بڑے منصوبوں کو مکمل تصور کر رہی ہے یا نئی سرمایہ کاری سے وقتی طور پر اجتناب برت رہی ہے۔
دوسری جانب کچھ شعبے ایسے بھی ہیں جنہیں حکومت نے ترجیح دی ہے اور ان کے لیے ترقیاتی فنڈز میں اضافہ کیا گیا ہے۔ ٹرانسپورٹ اور مواصلات ان میں سرفہرست ہیں، جن کے لیے بجٹ 268 ارب روپے سے بڑھا کر 332 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔
اس شعبے میں سڑکوں، ریلوے لائنز اور سی پیک سے جڑے انفراسٹرکچر منصوبوں کی اہمیت اب بھی بدستور قائم ہے، جو حکومت کی پالیسی ترجیحات کی عکاسی کرتی ہے۔
وفاقی حکومت کی سطح پر ترقیاتی بجٹ میں کمی کے برعکس، چاروں صوبوں نے اپنے سالانہ ترقیاتی پروگرامز میں خاطر خواہ اضافہ تجویز کیا ہے۔
اگلے مالی سال میں مجموعی صوبائی ترقیاتی بجٹ کا حجم 2795 ارب روپے تک بڑھنے کا امکان ہے، جو موجودہ سال کے 2358 ارب روپے کے مقابلے میں 437 ارب روپے یعنی تقریباً 18.5 فیصد زیادہ ہے۔
اس اضافے کی ایک بڑی وجہ غیر ملکی مالی امداد میں متوقع اضافہ ہے، جو کہ 577 ارب روپے سے بڑھ کر 802 ارب روپے تک پہنچ سکتی ہے۔
پنجاب کے لیے ترقیاتی فنڈز کا تخمینہ 1188 ارب روپے، سندھ کے لیے 887 ارب، خیبر پختونخوا کے لیے 440 ارب، اور بلوچستان کے لیے 280 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ پنجاب میں غیر ملکی امداد میں 46 فیصد اور خیبر پختونخوا میں 56 فیصد کا اضافہ ہوا ہے، جو صوبوں کی جانب سے بیرونی وسائل پر بڑھتے ہوئے انحصار کی علامت ہے۔
اس عمل سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ مرکز مالیاتی کفایت شعاری پر گامزن ہے، صوبے اپنی ترقیاتی ضروریات کے لیے زیادہ وسائل حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، خاص طور پر عالمی ترقیاتی اداروں اور بین الاقوامی ڈونرز سے۔
اسی سلسلے میں کچھ روز قبل سینیٹ کے اجلاس میں سینیٹر فیصل واوڈا کی جانب سے ایک بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے تجویز دی کہ حکومت کو دفاعی بجٹ میں اضافہ کرنا چاہیے، جبکہ ترقیاتی منصوبوں کے اخراجات میں مزید کمی لائی جائے۔
ان کا یہ مؤقف خاص طور پر اس وقت اہمیت اختیار کر گیا جب حالیہ مہینوں میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بدلتے ہوئے علاقائی حالات میں قومی سلامتی کو فوقیت دی جانی چاہیے، چاہے اس کے لیے سویلین منصوبوں کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔
مجموعی طور پر صورت حال اس جانب اشارہ کر رہی ہے کہ آئندہ چند سالوں میں ترقیاتی منصوبوں پر پیش رفت محدود رفتار سے ہو سکتی ہے، جب تک کہ ملکی معیشت میں استحکام اور آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہو جائے۔
حکومت کو ایک ایسی حکمت عملی وضع کرنا ہو گی جو محدود وسائل کے اندر رہتے ہوئے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کو یقینی بنا سکے، بصورت دیگر زیر التوا منصوبوں کی فہرست اور مالی بوجھ دونوں بڑھتے چلے جائیں گے۔