پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی اور سابق وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر پولی گرافک، فوٹو گرامیٹک اور وائس میچنگ جیسے سائنسی ٹیسٹ کروانے سے انکار کر کے نہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حیران کر دیا بلکہ 9 مئی کے مقدمات کی تفتیش کو ایک بار پھر تعطل کا شکار کر دیا۔
ذرائع کے مطابق لاہور پولیس کی ایک خصوصی ٹیم، ڈی ایس پی آصف جاوید کی سربراہی میں اور فرانزک ماہرین کے ہمراہ، اڈیالہ جیل پہنچی۔ ٹیم چار گھنٹے تک جیل میں موجود رہی، لیکن عمران خان نے نہ پیشی دی، نہ ہی کسی قسم کے سائنسی ٹیسٹ میں شرکت کی۔ یہ ان کا چوتھا انکار ہے — جو ایک خاموش پیغام بن کر ابھرا: "میں تفتیش کا حصہ نہیں بنوں گا!”
پولیس ٹیم، جو 9 مئی کے واقعات کی گتھی سلجھانے کے لیے جدید سائنسی ذرائع کا سہارا لینا چاہتی ہے، خالی ہاتھ واپس لوٹ گئی۔ یاد رہے کہ عمران خان پہلے بھی تین بار لاہور پولیس کی جانب سے دی گئی درخواستوں کو مسترد کر چکے ہیں۔
عدالتی حکم کے باوجود تعاون نہ کرنا سوالیہ نشان؟26 مئی کو لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت میں پراسیکیوشن نے واضح مؤقف اپنایا کہ جب تک پولی گراف اور فوٹوگرافک ٹیسٹ نہیں ہوں گے، تفتیش ادھوری رہے گی۔ عدالت نے اسی مؤقف کو تسلیم کرتے ہوئے پولیس کو عمران خان کے ان ٹیسٹ کروانے کا حکم دیا اور 9 جون تک رپورٹ طلب کرلی۔
عمران خان کے وکیل، بیرسٹر سلمان صفدر، نے ان سائنسی ٹیسٹوں کی سخت مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ دو سال بعد اس طرح کی درخواست بدنیتی پر مبنی ہے اور اس کا مقصد سیاسی دباؤ ڈالنا ہے۔
سوال اٹھتا ہے تفتیش مکمل ہوگی یا تکرار جاری رہے گی؟
کیا عمران خان کا یہ بار بار کا انکار کسی بڑی قانونی حکمتِ عملی کا حصہ ہے یا وہ واقعی ان ٹیسٹوں پر تحفظات رکھتے ہیں؟ کیا عدالت کا حکم قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے کافی ہے یا عمران خان کی مزاحمت مزید قانونی موشگافیوں کو جنم دے گی؟
یہ کہانی ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے جہاں تفتیش اور مزاحمت آمنے سامنے کھڑے ہیں — اور عوام منتظر ہے: کیا سچ سامنے آئے گا یا سچ بھی سیاسی کشمکش کی نذر ہو جائے گا؟
۔