امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس امر پر شدید تشویش کا اظہار کیا کہ بھارت حالیہ کشیدہ صورتحال کے تناظر میں پاکستان کے ساتھ بامعنی مکالمے سے دانستہ گریز کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی اعلیٰ سیاسی قیادت اور عسکری ادارے نہ صرف انسدادِ دہشت گردی کے سلسلے میں ہم آہنگ ہیں بلکہ دونوں کا یہ بھی مشترکہ مؤقف ہے کہ جنوبی ایشیا میں استحکام اور ترقی کے لیے بھارت کے ساتھ مثبت اور بامقصد سفارتی روابط قائم کرنا ناگزیر ہے۔
بلاول بھٹو زرداری، جو اس وقت وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے نامزد کیے گئے اہم سفارتی مشن کی سربراہی کر رہے ہیں، نے واضح کیا کہ بھارت کی جانب سے نہ صرف مذاکرات سے گریز کیا جا رہا ہے بلکہ پچھلے ہفتوں میں پیش آنے والے تشدد آمیز واقعات—خصوصاً پہلگام واقعے—کے بارے میں پاکستان کی طرف سے تحقیقاتی مطالبات کو بھی مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دہلی حکومت مختلف حیلے بہانوں کے ذریعے اس عمل کو مؤخر کر رہی ہے اور اپنی ذمہ داری سے منہ موڑ رہی ہے۔
انہوں نے بھارت کی اس پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کبھی سویلین اور عسکری قیادت کے درمیان فرق کا بہانہ بنایا جاتا ہے، کبھی جغرافیائی سیاست کے حالات کا حوالہ دیا جاتا ہے اور کبھی اسلاموفوبیا کا سہارا لیتے ہوئے پاکستان کو دہشت گردوں کا گڑھ قرار دے کر مذاکرات کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔
بلاول کے مطابق، یہ روش اب تھکن پیدا کر چکی ہے اور خطے کی امن پسند قوتوں کے لیے ناقابل قبول بنتی جا رہی ہے۔
پاکستانی وفد کی سرگرمیوں کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ وہ 2 جون سے ایک سفارتی دورے پر ہیں، جس کا مقصد عالمی برادری کو جنوبی ایشیا میں پائی جانے والی کشیدگی اور بھارت کے غیرلچکدار مؤقف سے آگاہ کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وفد نیویارک، واشنگٹن، لندن اور برسلز میں مختلف عالمی تنظیموں، پالیسی ساز اداروں اور سفارتی نمائندوں سے ملاقاتیں کر رہا ہے تاکہ بین الاقوامی رائے عامہ کو بھارت پر سفارتی دباؤ ڈالنے پر آمادہ کیا جا سکے۔
اس نو رکنی وفد میں نہ صرف بلاول بھٹو زرداری بلکہ ملک کی دیگر اہم سیاسی اور سفارتی شخصیات بھی شامل ہیں، جن میں سابق وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر، وفاقی وزیر خرم دستگیر، سینیٹر شیری رحمان، سینیٹر مصدق ملک، سینیٹر فیصل سبزواری، بشریٰ انجم بٹ، سابق سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی اور تہمینہ جنجوعہ شامل ہیں۔
بلاول بھٹو نے پریس کانفرنس میں بھارت کو پیشکش کی کہ اگر نئی دہلی پاکستان کے کسی بھی سطح کی قیادت—چاہے وہ عسکری ہو یا سیاسی—سے براہِ راست بات کرنا چاہے تو اسلام آباد اس کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی نیت پر شک کرنا یا اسے خطے میں امن کی راہ میں رکاوٹ قرار دینا، دراصل بھارت کی اپنی کمزوریوں کو چھپانے کی ایک چال ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بھارت نہ صرف پاکستان کے ساتھ کسی بھی طرح کے بامقصد مذاکرات سے گریز کر رہا ہے بلکہ وہ امریکہ، اقوام متحدہ یا کسی بھی دوسرے معتبر عالمی ثالث کی مداخلت کو بھی مسترد کرتا ہے۔ ان کے بقول، یہ مؤقف نہ صرف ناقابل فہم ہے بلکہ خطے میں پائیدار امن و ترقی کے امکانات کو شدید نقصان پہنچا رہا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے یہ بات زور دے کر کہی کہ بھارت کو مذاکرات سے انکار کی اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے کیونکہ یہ حکمتِ عملی نہ تو بھارت کے مفاد میں ہے اور نہ ہی خطے کی مجموعی صورتحال کے لیے موزوں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان خطے میں استحکام، تجارتی ترقی اور انسانی بہبود کے لیے ہر ممکن سنجیدہ اقدام کرنے کو تیار ہے، بشرطیکہ بھارت بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور مفاہمت کی میز پر بیٹھنے کی خواہش کا اظہار کرے۔