اسلام آباد میں آج شام ایک اہم پارلیمانی مرحلہ متوقع ہے جب مالی سال 2025-26 کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب یہ بجٹ شام چار بجے ایوان میں پیش کریں گے۔
اس سے قبل وزیراعظم شہباز شریف کی صدارت میں کابینہ کا ایک خصوصی اجلاس ہوگا جس میں بجٹ کے اہم نکات اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں و پنشن سے متعلق تجاویز کی منظوری دی جائے گی۔ یہ اجلاس مالی حکمتِ عملی کو حتمی شکل دینے کے لیے اہم تصور کیا جا رہا ہے۔
بجٹ کے ابتدائی خدوخال کے مطابق تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے اور پنشنز میں اسی شرح سے اضافے کی تجاویز زیر غور ہیں، جب کہ گریڈ 1 سے 16 کے وفاقی ملازمین کے لیے 30 فیصد ڈسپیرٹی الاؤنس بھی تجویز کیا گیا ہے تاکہ تنخواہوں میں موجود عدم توازن کو کسی حد تک دور کیا جا سکے۔
اس کے علاوہ بجٹ میں صنعتی ترقی، توانائی کی بچت، اور مجموعی معیشت کی بحالی کے لیے متعدد اصلاحاتی تجاویز بھی شامل ہیں۔
وفاقی حکومت نے توانائی کے شعبے میں بجلی کے کم استعمال کو فروغ دینے کے لیے ایک نئی اسکیم ترتیب دی ہے جس کے تحت صارفین کو انرجی سیور پنکھے بلاسود اقساط پر فراہم کیے جائیں گے۔
یہ اقساط بجلی کے ماہانہ بلوں کے ذریعے ادا کی جا سکیں گی تاکہ عام شہری بھی اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکیں۔ حکومت کا خیال ہے کہ اس اقدام سے بجلی کی طلب میں کمی واقع ہو گی۔
حکومت کی جانب سے رواں بجٹ میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو 14,307 ارب روپے محصولات اکٹھا کرنے کا ہدف دیا گیا ہے، جن میں 6,470 ارب روپے براہِ راست ٹیکسز، 4,943 ارب روپے سیلز ٹیکس، 1,741 ارب روپے کسٹمز ڈیوٹی اور 1,311 ارب روپے پٹرولیم لیوی شامل ہیں۔
نان ٹیکس آمدن کا تخمینہ 2,584 ارب روپے لگایا گیا ہے، جبکہ صرف سود کی ادائیگیوں کے لیے 8,685 ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں۔
دفاعی بجٹ کا حجم 2,414 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے، جب کہ وفاقی ترقیاتی منصوبوں کے لیے 1,065 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں تاکہ بنیادی ڈھانچے اور عوامی سہولیات کے منصوبے جاری رکھے جا سکیں۔
اس کے ساتھ ہی حکومت نے الیکٹرک گاڑیوں کے فروغ کے لیے ایک پانچ سالہ لیوی نافذ کرنے کی تجویز بھی دی ہے، جس کا اطلاق پیٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں پر ہوگا۔ اس سے حاصل ہونے والی آمدن کو نئی الیکٹرک وہیکل پالیسی 2026-30 پر خرچ کیا جائے گا۔
مزید برآں، حکومت مقامی سطح پر لیپ ٹاپ، سمارٹ فونز کی بیٹریز اور چارجرز کی تیاری کو فروغ دینے کے لیے بھی مالی مراعات دینے پر غور کر رہی ہے۔
ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کے لیے ایف بی آر نے پوائنٹ آف سیلز سسٹم کے تحت رجسٹرڈ ریٹیلرز کی تعداد 39 ہزار سے بڑھا کر 70 لاکھ کرنے کا ہدف رکھا ہے، تاکہ معیشت کو مزید دستاویزی بنایا جا سکے۔
ٹیکس چوری کے خلاف سخت اقدامات کی بھی تجویز دی گئی ہے، جن میں ٹیکس چوروں پر پانچ لاکھ سے بڑھا کر پچاس لاکھ روپے تک جرمانے عائد کرنے اور ٹیکس چوروں کی نشاندہی کرنے والوں کو انعام دینے کی اسکیم بھی شامل ہے۔
بجٹ میں شامل یہ تمام اقدامات حکومتی حکمتِ عملی کا حصہ ہیں جن کا مقصد مالی استحکام حاصل کرنا اور معاشی نظام کو بہتر خطوط پر استوار کرنا ہے۔