پاکستان میں عدالتی نظام گزشتہ کئی دہائیوں سے ناقص کارکردگی، التوا کے شکار مقدمات اور سست روی کی بنا پر شدید تنقید کی زد میں ہے۔
مقدمات کی بروقت سماعت کا فقدان، تاریخ پر تاریخ کا چلن، اور ججز و وکلا کی تعداد میں نمایاں کمی ایسے عوامل ہیں جنہوں نے عام شہری کی نظر میں عدلیہ پر سے اعتماد کمزور کر دیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں لاکھوں مقدمات برسوں سے فیصلے کے انتظار میں عدالتوں کی فائلوں میں دبے پڑے ہیں۔ ایسے حالات میں سوال یہ ابھرتا ہے کہ کیا جدید ٹیکنالوجی، خصوصاً مصنوعی ذہانت (AI)، اس بحران کا مؤثر حل پیش کر سکتی ہے؟
دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک نے عدالتی اصلاحات کے لیے مصنوعی ذہانت کو نہ صرف آزمایا بلکہ کامیابی کے ساتھ اسے اپنے نظامِ انصاف کا حصہ بھی بنایا۔ چین، برطانیہ، سنگاپور، اور کینیڈا جیسے ملکوں میں AI پر مبنی ٹیکنالوجی کو قانونی تحقیق، مقدمات کی درجہ بندی، اور فیصلوں کی تیاری جیسے کئی مراحل میں شامل کیا جا چکا ہے۔
ان ممالک میں عدالتی وقت کی بچت، فیصلہ سازی میں معاونت اور شفافیت میں اضافے کے نمایاں نتائج حاصل ہوئے ہیں۔ پاکستان میں بھی ان اصلاحات کو اپنانے کی ابتدائی کوششیں شروع ہو چکی ہیں، تاہم یہ سفر اب بھی اپنی ابتدائی سطح پر ہے۔
’پاکستان لا ڈاٹ اے آئی‘ جیسا پلیٹ فارم اس ضمن میں قابلِ ذکر قدم ہے جہاں ہزاروں عدالتی فیصلے ڈیجیٹل شکل میں دستیاب ہیں اور جدید الگوردمز کی مدد سے ان کا تجزیہ، تلخیص، اور تلاش ممکن ہے۔
اسی طرح صدارتی اقدام برائے مصنوعی ذہانت و کمپیوٹنگ (PIAIC) بھی نوجوان نسل کو AI کے میدان میں تعلیم و تربیت فراہم کر رہا ہے۔ ان اقدامات کا مقصد ایک ایسا ماحول تیار کرنا ہے جہاں عدالتی نظام جدید تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھال سکے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ اور چند دیگر عدالتی اداروں میں ’ای کورٹ‘ نظام متعارف کروایا گیا ہے، جس کے تحت مقدمات کی آن لائن رجسٹریشن، وڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے سماعت، اور ثبوتوں کی ڈیجیٹل درجہ بندی جیسے اقدامات شامل ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق، سال 2023 کے اختتام تک دو لاکھ سے زائد مقدمات ای کورٹ کے ذریعے نمٹائے گئے، جبکہ دسمبر کے مہینے میں 60 ہزار سے زائد شہریوں نے اس سسٹم سے براہِ راست استفادہ کیا۔
ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر جدید ٹیکنالوجی کو منظم طریقے سے اختیار کیا جائے تو اس کے مثبت نتائج ممکن ہیں۔
پاکستان سپریم کورٹ نے بھی ٹیکنالوجی کے مؤثر استعمال کو وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ایک فیصلے میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کو عدالتی معاون کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے سفارش کی کہ ایک واضح گائیڈ لائن تیار کی جائے تاکہ AI کو عدالتی تحقیقات، قانونی ریسرچ، اور فیصلوں کی تیاری میں مؤثر انداز میں استعمال کیا جا سکے۔
عدالت نے واضح کیا کہ AI کبھی بھی ایک انسانی جج کا متبادل نہیں ہو سکتا بلکہ اسے صرف ایک تحقیقی اور مشاورتی ٹول کے طور پر ہی استعمال کیا جانا چاہیے۔
سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اگر پاکستانی عدلیہ کو شفاف، مؤثر اور جدید بنانا ہے تو اسے ڈیجیٹل انقلاب کا حصہ بننا ہو گا۔
ان کے بقول عدالتی کارروائی کی نگرانی، تاریخوں کی مؤثر ترتیب، اور ثبوتوں کی حفاظت کے لیے جدید ٹیکنالوجی ناگزیر ہے۔
تاہم، اس ٹیکنالوجی کو وسیع پیمانے پر نافذ کرنے کے لیے پاکستان کو کئی اہم رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ ان میں سب سے اہم رکاوٹ ڈیجیٹل تعلیم کا فقدان ہے۔
ضلعی عدالتوں میں خدمات انجام دینے والے بیشتر وکلا اور ججز کمپیوٹر یا انٹرنیٹ کے استعمال سے واقف نہیں، اور دور دراز علاقوں میں تکنیکی سہولیات کی عدم دستیابی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
اس کے علاوہ اردو اور دیگر علاقائی زبانوں سے انگریزی میں ترجمہ، اور قانونی اصطلاحات کی پیچیدگی بھی AI سسٹمز کے مؤثر استعمال میں رکاوٹ بنتی ہے۔
قانونی ماہرین کے مطابق پاکستان کے پیچیدہ عدالتی نظام، جہاں شریعت، کامن لاء اور قبائلی ضوابط بیک وقت موجود ہیں، وہاں ایسی مصنوعی ذہانت تیار کرنا جو ان تمام نظاموں کی باریکیوں کو سمجھے، ایک نہایت مشکل چیلنج ہے۔
AI کو تربیت دینا کہ وہ نہ صرف قانون کی دفعات بلکہ مقدمات کے سیاق و سباق، نیتوں، اور اخلاقی تناظر کو بھی سمجھے، ایک طویل مدتی عمل ہو گا۔
ایڈووکیٹ عارف چوہدری کے مطابق اگر حکومت ایک مؤثر قومی پالیسی تیار کرے جس میں تحقیق، تربیت، انسانی وسائل کی ترقی، اور چین جیسے ممالک سے ٹیکنالوجی کا تبادلہ شامل ہو، تو پاکستان میں عدالتی اصلاحات کے دروازے کھل سکتے ہیں۔
ان کے مطابق عدالتوں کا بوجھ کم کرنے کے لیے AI کو مقدمات کے اندراج، فائلوں کی درجہ بندی، نظائر کی تلاش، اور قانونی دفعات کی وضاحت جیسے امور میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس سے عدالتی وقت کی بچت کے ساتھ ساتھ وکلا کو بھی اپنی تیاری بہتر بنانے کا موقع ملے گا۔
وکلا کے لیے بھی مصنوعی ذہانت ایک انقلابی سہولت بن سکتی ہے۔ اگر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلوں کو AI کے ساتھ مربوط کر دیا جائے تو وکلا چند سیکنڈز میں اپنی نوعیت کے مقدمات کے فیصلے تلاش کر سکتے ہیں۔
اس سے نہ صرف قانونی دلائل کی مضبوطی بڑھے گی بلکہ فیصلوں میں بھی ہم آہنگی پیدا ہو گی۔
تاہم، مصنوعی ذہانت کے استعمال میں کچھ حساس پہلو بھی ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
آئین پاکستان کا آرٹیکل 14 ہر شہری کو ذاتی زندگی کے تحفظ کا حق دیتا ہے، اور AI پر مبنی نگرانی سے یہ حق متاثر ہونے کا خدشہ موجود ہے۔
اسی لیے کسی بھی نظام کو نافذ کرنے سے قبل رازداری، ڈیٹا سیکیورٹی، اور اخلاقی حدود کا مکمل خیال رکھنا ہو گا۔
نتیجتاً، یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے عدالتی نظام میں مصنوعی ذہانت کے استعمال کی راہ میں مشکلات ضرور ہیں، مگر اس ٹیکنالوجی کو نظر انداز کرنا اب ممکن نہیں۔
اگر اسے صرف ایک معاون ذریعہ کے طور پر اپنایا جائے اور انسانی فہم و فراست کو فیصلہ سازی میں مرکزی حیثیت دی جائے، تو یہ جدت ملکی عدالتی نظام کو نئی توانائی فراہم کر سکتی ہے۔
عدلیہ میں شفافیت، تیزی، اور مؤثر کارکردگی لانے کے لیے AI کو شامل کرنا اب محض ایک انتخاب نہیں بلکہ وقت کی پکار ہے، جو انصاف کی فراہمی کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ بنانے کے لیے ناگزیر ہو چکی ہے۔