لاہور، فیصل آباد، ملتان اور راولپنڈی جیسے شہروں میں روایتی بازاروں کی کایا پلٹنے کا سلسلہ جاری ہے، جہاں پنجاب حکومت کے انسداد تجاوزات اقدامات نے نہ صرف شہری مناظر کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے بلکہ بازاروں کے عمومی تصور میں بھی ایک نیا رنگ بھر دیا ہے۔
وزیر اعلیٰ مریم نواز کی قیادت میں شروع کیے گئے اس منصوبے کے تحت جہاں بازاروں سے قبضے ختم کیے گئے، وہیں ان کی ظاہری شکل و صورت کو بھی ایک مربوط اور ہم آہنگ طرز پر ازسرنو ترتیب دیا گیا ہے۔
ان اقدامات کی جھلک سب سے نمایاں طور پر لاہور کے معروف انارکلی بازار میں دکھائی دیتی ہے۔ ماضی میں جہاں دکاندار فٹ پاتھوں پر سامان رکھ کر راہ گیروں کا راستہ بند کیا کرتے تھے، آج وہاں نظم و ضبط اور ترتیب کا ایک خوشگوار منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔
اب ہر دکان گہرے نیلے رنگ سے مزین ہے، اور تمام بورڈ ایک جیسے سائز اور ڈیزائن کے ساتھ دکانوں کے نام اور رابطہ نمبر سمیت نصب کیے گئے ہیں۔ یہ تبدیلی صرف ظاہری نہیں بلکہ ایک نئے شہری نظم کی نمائندہ ہے۔
یہ عمل لاہور تک محدود نہیں رہا بلکہ فیصل آباد، ملتان اور راولپنڈی کے بازاروں میں بھی اسی طرز پر تنظیم نو کی گئی۔ سرگودھا روڈ فیصل آباد، حسین آگاہی بازار ملتان، اور راجہ بازار راولپنڈی میں بھی دکانوں کو رنگ و روپ میں ہم آہنگ کر کے ایک نیا شہری جمال پیدا کیا گیا۔
ان شہروں میں بھی فٹ پاتھوں کو صاف کر کے پیدل چلنے والوں کے لیے راہ ہموار کی گئی اور تجاوزات کا صفایا کیا گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ انارکلی بازار، جو لاہور کی دو صدیوں پرانی تاریخی شناخت ہے، یہاں کی بحالی کے عمل میں دکانداروں نے خود بھی بھرپور حصہ لیا۔
دکانوں کو ایک ہی رنگ میں رنگنے اور بورڈز کی تنصیب کے اخراجات اکثریتی طور پر دکانداروں نے خود برداشت کیے، اگرچہ ہدایت ضلعی انتظامیہ کی جانب سے دی گئی تھی۔ بعض دکاندار اس بات پر شاکی بھی ہیں کہ اس عمل سے ان کی انفرادی شناخت ماند پڑ گئی ہے۔
مثلاً ایک دکاندار محمد صابر کا کہنا تھا کہ اگرچہ بازار کی خوبصورتی بحال ہوئی ہے لیکن خریداروں کا رش اب پہلے جیسا نہیں رہا۔
انارکلی بازار میں داخل ہوں تو آغاز میں پرانے وکٹورین انداز میں سرخ بورڈز آپ کو ماضی کی یاد دلاتے ہیں، جبکہ اندرونی حصے میں نئی انارکلی کی دکانیں نستعلیق رسم الخط والے ہلکے سرمئی بورڈز کے ساتھ قطار میں دکھائی دیتی ہیں، جو جدید طرز اور تہذیبی شناخت کا حسین امتزاج ہے۔
لاہور کی ٹولنٹن مارکیٹ میں تو اس تبدیلی کی جھلک اور بھی نمایاں ہے۔ یہ واحد مارکیٹ ہے جہاں تعمیر نو کا مکمل خرچ حکومت نے خود اٹھایا، جبکہ باقی بازاروں میں اخراجات دکانداروں سے لیے گئے۔
یہ مارکیٹ جو برائلر گوشت اور پرندوں کے لیے مشہور ہے، اب اپنی ظاہری شکل میں یورپ کی کسی منظم مارکیٹ کی طرح محسوس ہوتی ہے۔
باہر سے گزرنے والا شخص شاید یہاں رک کر خریداری نہ کرے لیکن ظاہری حسن اس کی توجہ ضرور کھینچتا ہے۔
اسی طرز پر فیصل آباد کی سرگودھا روڈ مارکیٹ میں دکانوں کو سفید رنگ سے آراستہ کیا گیا، راولپنڈی کے راجہ بازار میں یکساں بورڈز نصب کیے گئے، اور ملتان کے حسین آگاہی بازار کو ہلکے خاکستری رنگ میں ڈھالا گیا۔
البتہ راولپنڈی کے تاجر رضوان سنی اس عمل کو ملا جلا قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق تجاوزات ختم ہونے سے اگرچہ ٹریفک کی روانی بہتر ہوئی ہے، مگر ہر دکان کی ظاہری انفرادیت ختم ہو گئی ہے۔
شہریوں کی آرا بھی اس حوالے سے منقسم ہیں۔ لاہور کے رہائشی احمد کا کہنا ہے کہ پہلے خریداری کے لیے انارکلی آنا ایک مشکل عمل ہوتا تھا کیونکہ بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے گزرنا دشوار تھا، مگر اب بازار کھلا اور دلکش لگتا ہے۔
دوسری طرف ایک خاتون شہری آمنہ کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ خوش کن تو ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ نظام کب تک قائم رہ پائے گا؟ اگر حکومتی سختی کم ہو گئی تو دوبارہ وہی بے ترتیبی لوٹ آئے گی۔
شہری منصوبہ بندی کی ماہر ارم مشتاق کے مطابق انارکلی اور ٹولنٹن مارکیٹ کو ثقافتی اضلاع (Cultural Districts) کی صورت میں ترقی دینے کی گنجائش موجود ہے، لیکن پارکنگ اور ٹریفک جیسے بنیادی مسائل کو حل کیے بغیر ان کوششوں کے مکمل ثمرات حاصل نہیں کیے جا سکتے۔
ان کے خیال میں تجاوزات تو ختم ہو گئیں، لیکن اب ٹریفک کی بے ہنگمی نے ان جگہوں کو گھیر لیا ہے، جس کا حل صرف جامع اور طویل المدتی شہری منصوبہ بندی میں ہے۔
پنجاب حکومت کی ترجمان عظمیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ مریم نواز نے عہد کیا تھا کہ پنجاب کو صاف، شفاف، اور منظم بنائیں گی، اور وہ اپنے اس وعدے کو عملی شکل دینے کے لیے دن رات مصروف عمل ہیں۔
ان کے مطابق یہ صرف خوبصورتی کا منصوبہ نہیں بلکہ شہری فلاح، ماحولیات کی بہتری، اور عوامی سہولتوں کی فراہمی کی ایک وسیع تر حکمت عملی کا حصہ ہے۔
یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ تجاوزات کے خلاف اس مہم میں صرف بازاروں کی تنظیم نو نہیں کی گئی بلکہ سخت قانونی اقدامات بھی کیے گئے۔
لاہور میٹروپولیٹن کارپوریشن اور ایف آئی اے کے مطابق شہر بھر میں تین ہزار سے زائد مستقل اور عارضی تجاوزات ہٹائی گئیں، اور سنگین خلاف ورزیوں پر مقدمات بھی قائم کیے گئے۔