وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کل قومی اسمبلی میں مالی سال 2025-26 کے بجٹ کی تفصیلات پیش کیں، جس دوران اپوزیشن اراکین کی جانب سے شدید احتجاج اور نعرے بازی دیکھنے میں آئی۔
بجٹ کا کل حجم 17 ہزار 600 ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے، جو ملکی مالیاتی ترجیحات کا ایک جامع خاکہ پیش کرتا ہے۔ وزیر خزانہ نے اپنی تقریر کے دوران سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کے ساتھ ساتھ انکم ٹیکس کے نظام میں بڑی تبدیلیوں کا اعلان کیا۔
گریڈ ایک سے بائیس تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ اور پنشن میں سات فیصد اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔
تنخواہ دار طبقے کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے انکم ٹیکس کی شرح میں بھی خاطر خواہ کمی کی گئی ہے۔ سالانہ 12 لاکھ روپے تک کمانے والے افراد کے لیے انکم ٹیکس کی شرح کو پانچ فیصد سے کم کرکے ایک فیصد کرنے کی تجویز سامنے آئی ہے، جس کے نتیجے میں اُن پر عائد ٹیکس 30 ہزار سے گھٹ کر صرف چھ ہزار روپے رہ جائے گا۔
اسی طرح، سالانہ 22 لاکھ روپے تک آمدن رکھنے والوں کے لیے ٹیکس کی شرح پندرہ فیصد سے کم کرکے گیارہ فیصد تک کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ سالانہ 22 لاکھ سے 32 لاکھ روپے تک آمدن والے افراد پر ٹیکس 25 فیصد سے گھٹ کر 23 فیصد تک لانے کی تجویز دی گئی ہے۔
بڑی آمدن والے افراد کے لیے بھی ٹیکس کی شرح میں کمی کی تجاویز شامل کی گئی ہیں تاکہ ٹیکس نظام کو مزید منصفانہ اور قابل قبول بنایا جا سکے۔
وزیر خزانہ نے ٹیکس فائلرز اور نان فائلرز کے درمیان فرق ختم کرنے کے لیے انکم ٹیکس کے نئے درجہ بندی کے نظام کا اعلان کیا ہے۔
اس نظام کے تحت صرف وہی افراد جو باقاعدگی سے گوشوارے اور ویلتھ اسٹیٹمنٹ جمع کرائیں گے، انہیں بڑی مالیاتی سرگرمیوں جیسے جائیداد، گاڑی، سیکیورٹیز، میوچل فنڈز میں سرمایہ کاری اور بعض بینک اکاؤنٹس کھولنے کی اجازت ہو گی۔ جو افراد ٹیکس فائلر نہ ہوں، اُن کے لیے گاڑی یا جائیداد خریدنے یا بینک اکاؤنٹ کھلوانے کی اجازت نہیں ہو گی۔
بجٹ میں ای-کامرس پلیٹ فارمز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے اہم قدم اٹھایا گیا ہے۔ آن لائن شاپنگ پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے تاکہ روایتی کاروباروں اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے درمیان برابری کی فضاء قائم کی جا سکے۔
تجویز دی گئی ہے کہ کوریئر اور لاجسٹکس کمپنیاں یہ سیلز ٹیکس ای-کامرس پلیٹ فارمز سے وصول کر کے جمع کرائیں گی۔
بجٹ میں پنشن کے نظام میں اصلاحات کی بھی جھلک نمایاں ہے۔ وزیر خزانہ کے مطابق، ماضی میں ایگزیکٹو آرڈرز کے ذریعے پنشن اسکیم میں متعدد تبدیلیاں کی گئیں جن سے خزانے پر غیر ضروری بوجھ بڑھا۔
اس بوجھ کو کم کرنے کے لیے نئی اصلاحات متعارف کروائی گئی ہیں جن میں قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی حوصلہ شکنی، پنشن کو مہنگائی سے جوڑنا، شریک حیات کے انتقال کے بعد پنشن کو صرف 10 سال تک محدود کرنا، اور دو سے زائد پنشنز کے خاتمے جیسے اقدامات شامل ہیں۔
ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ ملازمت کی صورت میں پنشن یا تنخواہ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا لازم ہو گا۔
شمسی توانائی کے شعبے میں مقامی صنعت کو فروغ دینے کے لیے سولر پینلز کی درآمد پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز بھی بجٹ کا حصہ ہے۔
اس اقدام کا مقصد مقامی تیار کنندگان کو درآمدی مصنوعات سے مقابلے کے لیے مساوی مواقع فراہم کرنا ہے تاکہ اندرون ملک شمسی توانائی کے شعبے میں روزگار اور سرمایہ کاری کو فروغ ملے۔
رئیل اسٹیٹ کے شعبے میں بھی متعدد اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ جائیداد کی خریداری پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح کو کم کر دیا گیا ہے: 4 فیصد سے 2.5 فیصد، 3.5 فیصد سے 2 فیصد، اور 3 فیصد سے 1.5 فیصد۔ اسی طرح گزشتہ سال عائد کی گئی 7 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو ختم کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔
کم لاگت کے گھروں کی تعمیر کے لیے ٹیکس کریڈٹ متعارف کرایا جا رہا ہے جو 10 مرلے تک کے گھروں اور 2 ہزار اسکوائر فٹ کے فلیٹس پر لاگو ہو گا۔
اسلام آباد میں جائیداد خریدنے پر اسٹامپ ڈیوٹی کو چار فیصد سے گھٹا کر ایک فیصد کرنے کی تجویز ہے تاکہ رہائشی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔
سماجی تحفظ کے دائرہ کار کو وسعت دینے کے لیے بجٹ میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 716 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جس میں گزشتہ برس کے مقابلے میں 21 فیصد اضافہ شامل ہے۔
کفالت پروگرام کے ذریعے مستفید ہونے والے افراد کی تعداد کو ایک کروڑ تک پہنچانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
قبائلی علاقوں کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے نئے ضم شدہ اضلاع میں آئندہ پانچ سال کے دوران مرحلہ وار سیلز ٹیکس لاگو کرنے کی تجویز بھی بجٹ کا حصہ ہے۔
اگلے مالی سال میں اس کا آغاز 10 فیصد کم شرح سے کیا جائے گا تاکہ بتدریج ان علاقوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جا سکے۔
وفاقی کابینہ نے وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں خصوصی اجلاس میں بجٹ کی منظوری دی، جس میں نہ صرف محصولات بڑھانے بلکہ مالیاتی خسارے کو کم کرنے کی حکمت عملی پر بھی زور دیا گیا۔
تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کے علاوہ، صنعتی ترقی، توانائی کی بچت، اور اقتصادی بحالی کے لیے بھی متعدد پالیسیاں پیش کی گئی ہیں۔
وفاقی ترقیاتی پروگرام کے لیے 1,065 ارب روپے، دفاع کے لیے 2,414 ارب روپے، اور سود کی ادائیگیوں کے لیے 8,685 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
ایف بی آر کو 14,307 ارب روپے کے ٹیکس اکٹھا کرنے کا ہدف دیا گیا ہے، جس میں ڈائریکٹ ٹیکس، سیلز ٹیکس، کسٹمز ڈیوٹی اور پٹرولیم لیوی شامل ہیں۔
توانائی کے شعبے میں بہتری کے لیے حکومت نے بجلی کی بچت کے لیے انرجی سیور پنکھے بلاسود اقساط پر فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے، جنہیں بجلی کے بل کے ذریعے اقساط میں ادا کیا جا سکے گا۔
ماحول دوست ٹرانسپورٹ کے فروغ کے لیے، پٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں پر پانچ سالہ لیوی لگانے کی تجویز دی گئی ہے تاکہ اس سے حاصل ہونے والا ریونیو الیکٹرک وہیکل پالیسی 2026-30 کے تحت استعمال ہو۔
ٹیکنالوجی کی مقامی پیداوار کے فروغ کے لیے لیپ ٹاپ، سمارٹ فونز کی بیٹریز اور چارجرز پر بھی مراعات دی جانے کا عندیہ دیا گیا ہے۔
ایف بی آر نے ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کے لیے پوائنٹ آف سیلز سسٹم کو مؤثر بنانے کا منصوبہ تیار کیا ہے اور ریٹیلرز کی تعداد 39 ہزار سے بڑھا کر 70 لاکھ تک لے جانے کا ہدف رکھا ہے۔
ٹیکس چوری کے سدباب کے لیے جرمانوں میں اضافہ کیا گیا ہے اور ان افراد کو انعام دینے کی سکیم بھی تجویز کی گئی ہے جو ٹیکس چوروں کی نشاندہی کریں گے۔