پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے زور دیا کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے لیے امریکہ کو چاہیے کہ وہ بھارت کو کسی نہ کسی طور مذاکرات کی میز پر لانے پر مجبور کرے، چاہے اسے "کان سے پکڑ کر” لانا پڑے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف پاکستان اور بھارت کے درمیان معاملہ نہیں بلکہ عالمی برادری کے امن، استحکام اور ترقی سے وابستہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر امریکہ اور دیگر عالمی طاقتیں خطے میں حقیقی امن چاہتی ہیں تو انہیں بھارت پر دباؤ ڈالنا ہوگا کہ وہ ضد چھوڑ کر بات چیت کا راستہ اختیار کرے۔
بلاول بھٹو نے بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر کو یکطرفہ طور پر بھارتی آئین میں ضم کرنے کے عمل پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت کا یہ دعویٰ کہ کشمیر اس کا "اندرونی معاملہ” ہے، ایک ایسا جھوٹ ہے جسے اب دنیا قبول کرنے کو تیار نہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں کشمیر کو متنازعہ علاقہ تسلیم کرتی ہیں اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کشمیری عوام کو ان کا حقِ خودارادیت دیا جانا ضروری ہے۔
بلاول بھٹو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان ان بیانات کو محض رسمی الفاظ نہیں بلکہ اخلاقی اور سفارتی وعدہ تصور کرتا ہے۔
ان کے مطابق جب امریکی صدر بار بار کہتے ہیں کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل میں مدد کے لیے تیار ہیں، تو دنیا کو چاہیے کہ وہ ان بیانات پر بھارت سے جواب طلبی کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے بھارت کی قیادت نے ہر بار امن کی پیشکش کو مسترد کیا اور پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرا کر دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ عالمی برادری کے سامنے امن کا پیغام رکھا اور جنگ سے گریز کی پالیسی کو اپنایا۔ ان کے مطابق چاہے وہ 1965 ہو یا 1971، پاکستان نے جنگ کے بعد اقوام متحدہ کی نگرانی میں لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کے معاہدوں کی پاسداری کی، جبکہ بھارت نے ہر موقع پر کشیدگی کو ہوا دینے کی کوشش کی۔
ان کا کہنا تھا کہ خطے میں دہشتگردی، پانی کے وسائل کی تقسیم، یا سرحدی تنازعات جیسے مسائل صرف بات چیت اور سفارتکاری سے حل ہو سکتے ہیں، اور پاکستان اس حوالے سے ہمیشہ تیار رہا ہے۔
میڈیا کے کردار پر گفتگو کرتے ہوئے بلاول نے کہا کہ بھارتی میڈیا حکومت کا پروپیگنڈا آلہ بن چکا ہے، جس کا مقصد عوام کو حقائق سے دور رکھنا ہے۔ انہوں نے اس کے برعکس پاکستانی میڈیا کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں صحافیوں نے مشکل حالات کے باوجود سچائی کو عوام تک پہنچایا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف بھارت میں میڈیا آزاد آوازوں کو دبا رہا ہے اور دوسری طرف پاکستان میں صحافت نے عالمی ضمیر کو جگانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
کینیڈا، امریکہ اور آسٹریلیا جیسے ممالک میں بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی سرگرمیوں کا حوالہ دیتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ بھارتی حکومت دہشتگردی کو بطور ریاستی ہتھیار استعمال کر رہی ہے۔
ان کے مطابق کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کھلے عام بھارت پر سکھ رہنما کے قتل کا الزام لگایا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت بین الاقوامی قوانین کو پامال کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں کام کرنے والی دہشتگرد تنظیموں کو بھی بھارت سے مالی اور عسکری مدد ملتی ہے، اور ان کا ہدف پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنا ہے۔
انہوں نے بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی پر بھی سخت تنقید کی اور کہا کہ ان پر گجرات میں مسلمانوں کے قتلِ عام کے الزامات عائد ہو چکے ہیں، لیکن ان کے خلاف آج تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
بلاول کے مطابق مودی حکومت ہر بار انتخابات سے قبل پاکستان مخالف بیانیہ اپنا کر ووٹ حاصل کرتی ہے، اور جب بھی ان کی مقبولیت کم ہوتی ہے تو وہ سرحد پار حملوں اور الزامات کے ذریعے قوم پرستی کو ہوا دیتے ہیں۔
انہوں نے یاد دلایا کہ پاکستان نے بھارتی پائلٹ ابھینندن کو گرفتار کرنے کے باوجود اخلاقی برتری قائم رکھتے ہوئے اسے واپس بھیجا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان جنگ نہیں، امن چاہتا ہے۔
پانی کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سندھ طاس معاہدہ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے، جسے بھارت یکطرفہ طور پر منسوخ نہیں کر سکتا۔
اگر بھارت اس معاہدے کو توڑتا ہے تو یہ بین الاقوامی جنگی عمل کے مترادف ہوگا، جس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ ان کے مطابق پاکستان نے ہمیشہ عالمی قوانین کی پاسداری کی، جبکہ بھارت بین الاقوامی معاہدوں کو اپنی مرضی سے توڑ مروڑ کر پیش کرتا رہا ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ بھارت نے ہمیشہ پاکستان پر دہشتگردی کے جھوٹے الزامات لگائے، لیکن عالمی برادری نے ان بیانیوں پر یقین نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ پلوامہ حملہ دراصل بھارت کی اپنی سیکیورٹی کی ناکامی تھی، جسے چھپانے کے لیے پاکستان پر الزام دھر دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب حقائق سامنے آئے تو دنیا کو اندازہ ہوا کہ بھارت کا مقصد صرف جنگی جنون پیدا کرنا تھا، نہ کہ سچائی تک پہنچنا۔
اختتاماً بلاول بھٹو نے کہا کہ دنیا کو اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ سچ کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے یا جنگی جنون پھیلانے والے جھوٹے بیانیے کے ساتھ۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ہمیشہ عالمی برادری کے ساتھ تعاون کیا اور امن، انصاف اور برابری کی بنیاد پر بات چیت کی دعوت دی۔ لیکن اگر بھارت مسلسل انکار کی پالیسی پر قائم رہا تو خطے میں کوئی بھی ترقی، خوشحالی یا امن کا خواب پورا نہیں ہو سکے گا۔