بلوچستان کے ساحلی علاقے کنٹانی کے قریب گواتر بے میں پیر کے روز ایک 35 فٹ لمبی نیلی وہیل کی مردہ حالت میں دریافت نے مقامی اور عالمی ماحولیاتی ماہرین کو افسردہ کر دیا ہے۔
اس واقعے کی اطلاع ایک مقامی ماہی گیر احمد بلوچ نے دی، جو اس وقت علاقے میں ماہی گیری کر رہے تھے۔ انہوں نے سمندر کی سطح پر ایک بڑی مچھلی کی لاش تیرتی دیکھی اور حکام کو مطلع کیا۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق، یہ ممکن ہے کہ نیلی وہیل کچھ دن پہلے ایران اور پاکستان کے درمیانی کھلے سمندر میں ہلاک ہو گئی ہو، اور پھر خراب موسم اور تیز سمندری لہروں کے باعث اس کی لاش گواتر بے کی طرف بہہ آئی ہو۔
ابھی تک اس کی موت کی حتمی وجہ کا تعین تو نہیں کیا جا سکا، لیکن ماہرین کا اندازہ ہے کہ شاید یہ وہیل مچھلی پکڑنے کے لیے استعمال کی جانے والی جالوں، خاص طور پر گل نیٹس، میں پھنس کر جان سے گئی ہو۔
یہ جال اکثر ساحلی اور آف شور پانیوں میں نصب کیے جاتے ہیں اور بڑے جانوروں کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتے ہیں۔
ماہرین حیاتیات کے مطابق، نیلی وہیل (Balaenoptera musculus) دنیا کے سب سے بڑے جانوروں میں سے ایک ہے، اور پاکستانی سمندری حدود میں ریکارڈ کی گئی تین بڑی بیلین وہیلز میں سے ایک ہے۔ دیگر دو اقسام میں برائیڈز وہیل اور عربی ہمب بیک وہیل شامل ہیں۔
نیلی وہیل کی چار ذیلی اقسام دنیا بھر میں پائی جاتی ہیں، جن میں ’پیگمی بلو وہیل‘ (Balaenoptera musculus brevicauda) اور ’انڈین اوشن بلو وہیل‘ (Balaenoptera musculus indica) خاص طور پر شمالی بحر ہند میں پائی جاتی ہیں۔
کنٹانی کے ساحل پر مردہ پائی جانے والی یہ وہیل چونکہ نسبتاً چھوٹی جسامت کی تھی، اس لیے امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ پیگمی نیلی وہیل ہو سکتی ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ٹیکنیکل ایڈوائزر، محمد معظم خان نے اس واقعے پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نیلی وہیل کی موت عالمی سطح پر تحفظ ماحول کی کوششوں کے لیے ایک تشویشناک پیغام ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ نایاب مخلوق عمومی طور پر بحر ہند کے گرم اور نیم گرم پانیوں میں پائی جاتی ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ نیلی وہیل کو انڈین اوشن میں ایک خطرے سے دوچار مخلوق تصور کیا جاتا ہے، اس لیے اس کی بقا کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔
معظم خان نے مزید کہا کہ اب سندھ اور بلوچستان کی جنگلی حیات و ماہی گیری کی قوانین کے تحت تمام سمندری ممالیہ جیسے وہیل، ڈالفن وغیرہ مکمل طور پر تحفظ یافتہ قرار دیے جا چکے ہیں۔
اس کے باوجود، ماہی گیری کے خطرناک طریقے اور بے قابو ماحولیاتی تبدیلیاں ان جانداروں کے لیے مسلسل خطرہ بنی ہوئی ہیں۔