پاکستان کی حکومت نے دو اہم پانی ذخیرہ کرنے والے منصوبوں، یعنی دیامر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی تکمیل کے لیے مالی وسائل جمع کرنے کی خاطر ایک خصوصی ٹیکس عائد کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔
اس مجوزہ ٹیکس کے مطابق ملک میں پیدا ہونے والی تقریباً تمام ٹیکس قابل مصنوعات پر ایک فیصد خصوصی سیس (Cess) لاگو کیا جائے گا، سوائے بجلی اور ادویات کے۔
وزارت خزانہ اور وزارت آبی وسائل کے ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب اکثر صوبائی حکومتوں نے ان میگا پراجیکٹس کی بروقت تکمیل کے لیے مطلوبہ مالی تعاون فراہم کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا۔
دیامر بھاشا ڈیم کی لاگت تقریباً 480 ارب روپے جبکہ مہمند ڈیم کی ابتدائی لاگت 310 ارب روپے بتائی گئی تھی۔ تاہم آج بھی ان منصوبوں کی تکمیل کے لیے 540 ارب روپے مزید درکار ہیں۔
حکومت کی طرف سے اس نئے سیس کو لاگو کرنے کی تجویز پر بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے بعض تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
آئی ایم ایف کا مؤقف ہے کہ حکومت کو وفاقی پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (PSDP) کے ایک ہزار ارب روپے کے دائرہ کار میں رہ کر مالی گنجائش تلاش کرنی چاہیے، بجائے اس کے کہ عوام پر نیا بوجھ ڈالا جائے۔
واضح رہے کہ یہ سیس کسی بھی عام ٹیکس سے مختلف ہوتا ہے کیونکہ اسے کسی مخصوص مقصد کے لیے نافذ کیا جاتا ہے، جیسا کہ ماضی میں گیس انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس (GIDC) ایران-پاکستان گیس پائپ لائن کے لیے لاگو کیا گیا تھا۔
اب حکومت چاہتی ہے کہ تمام وہ اشیاء جو مقامی سطح پر تیار ہو کر سیلز ٹیکس کے دائرے میں آتی ہیں، ان پر یہ ایک فیصد اضافی سیس عائد کیا جائے۔
البتہ وہ اشیاء جو سیلز ٹیکس قانون کے چھٹے شیڈول کے تحت مستثنیٰ یا پانچویں شیڈول کے تحت زیرو ریٹڈ ہیں، انہیں اس سے استثنا دیا جائے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سیس کے نفاذ کے لیے حکومت آئی ایم ایف اور پارلیمنٹ دونوں کی منظوری کی منتظر ہے۔ اس مقصد کے لیے اسے فنانس ایکٹ 2025 کے ذریعے نافذ نہیں کیا جائے گا بلکہ الگ سے ایک نیا بل پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ کے ایک سابقہ فیصلے کی روشنی میں حکومت کو مجبوراً علیحدہ قانون سازی کرنا ہوگی کیونکہ سیس صرف مخصوص مقاصد کے لیے اور علیحدہ قانون کے ذریعے ہی نافذ ہو سکتا ہے۔
اس حوالے سے وزارت خزانہ اور وزارت آبی وسائل کے ترجمانوں نے سرکاری طور پر کوئی جواب دینے سے گریز کیا ہے۔
تاہم ایک اعلیٰ سرکاری افسر نے تصدیق کی کہ تجویز پر غور جاری ہے اور آئی ایم ایف سے مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
ماضی کی مثالوں سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کی جانب سے نافذ کیے گئے سیسز کی وصولی میں غفلت برتی گئی۔ جیسا کہ جی آئی ڈی سی کے تحت ٹیکسٹائل اور فرٹیلائزر کمپنیوں نے صارفین سے رقم وصول تو کی مگر 400 ارب روپے سے زائد کی رقم حکومت کے اکاؤنٹس میں جمع نہ کرائی۔ اس معاملے پر بھی مؤثر حکمت عملی نہیں اپنائی جا سکی۔
پیٹرولیم کے وزیر علی پرویز کی مداخلت پر حکومت نے اس رقم کی وصولی کے لیے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی زیر صدارت ایک نئی کمیٹی قائم کی ہے، مگر اس کمیٹی کی رفتار بھی بہت سست ہے۔
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ حکومت کو ان منصوبوں کی مالی ضروریات کے لیے PSDP سے فنڈز نکالنے چاہئیں، نہ کہ عوام پر مزید بوجھ ڈالنا چاہیے۔
مگر موجودہ بجٹ میں پانی کے شعبے کے لیے مختص رقم میں 28 فیصد کی کمی کر دی گئی ہے اور نئی مالی سال میں صرف 133 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ ایسے میں حکومت کو متبادل ذرائع تلاش کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کے مطابق، ایک ہزار ارب روپے کے PSDP میں سے حقیقتاً صرف 640 ارب روپے ایسے ہیں جو نئے منصوبوں پر خرچ کیے جا سکتے ہیں، باقی رقم مخصوص علاقائی اسکیموں اور نیشنل ہائی وے (N-25) جیسے منصوبوں کے لیے مختص ہے۔
صوبوں کے تعاون کی کمی بھی حکومت کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ نیشنل اکنامک کونسل کے حالیہ اجلاس کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے تمام صوبوں سے ملاقات کی تاکہ وہ ان ڈیموں کی تعمیر میں مالی تعاون پر آمادہ ہو جائیں۔ تاہم، ذرائع کے مطابق صرف خیبر پختونخوا نے مثبت ردِ عمل دیا، باقی تمام صوبے تعاون سے گریزاں ہیں۔
نئی مالی سال میں دیامر بھاشا ڈیم کے لیے صرف 25 ارب روپے رکھے گئے ہیں، جو کہ موجودہ مالی سال سے بھی کم ہیں۔ مہمند ڈیم کے لیے 35.7 ارب روپے رکھے گئے ہیں، جبکہ اس کی تکمیل کے لیے اب بھی 173 ارب روپے درکار ہیں۔
احسن اقبال نے اعلان کیا ہے کہ دونوں منصوبوں کی تکمیل کی مدت کو دو سال کم کر کے 2030 تک مکمل کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔
ان کے مطابق ان ڈیموں کی تکمیل کے بعد پاکستان کے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں 70 لاکھ ایکڑ فٹ کا اضافہ ہو گا۔
موجودہ حالات میں تربیلا اور منگلا جیسے بڑے آبی ذخائر کو سلٹ اور تکنیکی مسائل کی وجہ سے ذخیرہ کرنے کی مشکلات درپیش ہیں۔ یہ صورتحال مزید آبی ذخائر کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے۔
دوسری جانب، سندھ حکومت نے اگلے مالی سال کے لیے خسارے کا بجٹ پیش کیا ہے جس میں 38.5 ارب روپے کا خسارہ دکھایا گیا ہے، حالانکہ مارچ 2025 تک صوبے کے پاس 395 ارب روپے کی نقدی موجود تھی۔
یہ صورتحال آئی ایم ایف کے اس ہدف کے برعکس ہے جس کے تحت تمام صوبوں سے مجموعی طور پر 1.4 ٹریلین روپے کی بچت دکھانا مطلوب ہے۔
ان تمام چیلنجز کے باوجود، حکومت پاکستان کا مؤقف یہی ہے کہ قومی سلامتی اور بھارت کی آبی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے ان دو بڑے منصوبوں کی جلد از جلد تکمیل ضروری ہے، اور اس کے لیے تمام دستیاب ذرائع استعمال کیے جائیں گے۔