راولپنڈی کے مضافاتی علاقے کہوٹہ سے تعلق رکھنے والی دو نوجوان بہنوں، 29 سالہ ہاجرہ زاہد اور 25 سالہ حلیمہ زاہد، نے ایک خواب آنکھوں میں سجا کر بیرونِ ملک تعلیمی سفر کا آغاز کیا تھا۔
ان کا ارادہ تھا کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ جائیں، وہاں سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کریں، اور پھر ایک بہتر مستقبل کی بنیاد رکھیں۔
ان کا ماننا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم حاصل کرنا نہ صرف کامیابی کی علامت ہے بلکہ زندگی کو یکسر بدل دینے والا تجربہ بھی ہے۔
اس خواب کی تعبیر کے لیے دونوں بہنوں نے پاکستان میں اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بھرپور تیاری کی اور سیلف فنانس پر یونیورسٹی آف چیسٹر، برطانیہ میں انٹرنیشنل بزنس کے ماسٹرز پروگرام میں داخلہ لیا۔
وہ 5 فروری 2025 کو برطانیہ پہنچیں اور باقاعدہ تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ ان کے ساتھ نہ تو ہاجرہ کے بچے تھے اور نہ ہی ان کا شوہر، جو پاکستان میں ہی مقیم ہیں۔
بدقسمتی سے، ان کی زندگی کا یہ خواب چند ماہ بعد ہی المیے میں تبدیل ہو گیا۔ 11 جون کو دونوں بہنیں شیفلڈ میں اپنے رہائشی مقام سے ایک روزہ تفریح کے لیے نارتھ ویلز کے مشہور نیشنل پارک گئیں۔
سہ پہر کے وقت وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ ایک قدرتی جھیل کے قریب موجود تھیں جب یہ اندوہناک واقعہ پیش آیا۔ پانی میں نہاتے ہوئے دونوں بہنیں ایک دوسرے سے جدا ہو گئیں اور ڈوب گئیں۔
شام چھ بجے کے قریب شروع ہونے والی یہ افسوسناک صورتحال رات ساڑھے نو بجے جا کر اس وقت ختم ہوئی جب ریسکیو ٹیموں نے دونوں کی لاشیں پانی سے نکالیں۔
حیران کن طور پر ایک بہن کی لاش جھیل کے ایک کونے سے ملی جبکہ دوسری کسی اور مقام سے برآمد ہوئی۔ ان کی بازیابی کے لیے ہیلی کاپٹر کی مدد بھی لی گئی۔
ان کے قریبی عزیز اور برطانیہ میں موجود گارڈین راجہ عظیم کے مطابق حادثے کے فوری بعد والدہ کا صدمے سے ذہنی توازن بگڑ چکا ہے۔
وہ نہ بول پاتی ہیں نہ رو پاتی ہیں، گویا ان کی پوری ذات شل ہو گئی ہو۔ ہاجرہ زاہد کے دو کم سن بیٹے بھی ہیں، ایک کی عمر چھ سال اور دوسرے کی تین سال ہے، جبکہ حلیمہ ابھی غیر شادی شدہ تھیں۔ ان کا ایک چھوٹا بھائی بھی ہے اور ان کے والد کا انتقال پانچ برس قبل ہو چکا تھا۔
واقعے کے بارے میں مزید تفصیلات ابھی سامنے نہیں آ سکیں۔ راجہ عظیم نے بتایا کہ پولیس بیانات میں تضاد ہے اور واقعے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے لیے عدالتی انکوائری شروع کر دی گئی ہے۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی تاحال جاری نہیں ہوئی، تاہم ابتدائی معلومات اور عینی شاہدین کی گواہی سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دونوں کی موت ڈوبنے سے ہوئی۔
راجہ عظیم کا کہنا ہے کہ وہ خود بھی ریسکیو کے وقت جائے وقوعہ پر موجود تھے اور انہوں نے اپنی آنکھوں سے لاشیں نکالی جاتی دیکھیں۔
اس حادثے نے صرف ایک خاندان ہی نہیں بلکہ پورے علاقے کو سوگوار کر دیا ہے۔ دونوں بہنوں کی نماز جنازہ گجرخان میں ادا کی گئی جہاں ان کی میتیں راولپنڈی پہنچنے کے بعد تدفین کے لیے لائی گئیں۔
ہاجرہ کے شوہر نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پیغام میں واقعے کی مکمل اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ معلوم کیا جانا ضروری ہے کہ دونوں خواتین جھیل میں کن حالات میں داخل ہوئیں اور کس طرح ڈوب گئیں۔
انہوں نے برطانیہ کی پولیس اور عدلیہ سے انصاف کی اپیل کی ہے تاکہ اصل حقائق دنیا کے سامنے لائے جا سکیں اور اس المیے کی اصل وجوہات کا تعین ہو سکے۔