وزیراعظم شہباز شریف اور ایران کے صدر مسعود پیزشکیان کے درمیان اہم ٹیلیفونک گفتگو ہوئی، جس میں حالیہ امریکی فضائی حملوں اور خطے کی مجموعی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
اس رابطے کے دوران وزیراعظم شہباز شریف نے امریکی کارروائیوں کو نہایت خطرناک اور عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے ان پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ وہ تنصیبات جنہیں بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کی نگرانی اور تحفظ میں شمار کیا جاتا ہے، ان پر حملہ کرنا نہ صرف IAEA کے ضوابط کی سنگین خلاف ورزی ہے بلکہ یہ عمل اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصولوں سے بھی متصادم ہے۔
ان کے مطابق ایسی کارروائیاں نہ صرف عالمی امن کو داؤ پر لگاتی ہیں بلکہ یہ ایک خطرناک نظیر قائم کرتی ہیں جس کے نتائج سنگین ہو سکتے ہیں۔
شہباز شریف نے اسرائیل کی جانب سے پچھلے آٹھ دنوں کے دوران ایران پر کی جانے والی فوجی جارحیت کو بلا جواز اور اشتعال انگیز قرار دیتے ہوئے اس کے بعد ہونے والے امریکی حملوں کی بھی شدید الفاظ میں مذمت کی۔
انہوں نے ایران کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ایرانی عوام اور حکومت کو باور کرایا کہ پاکستان ہمیشہ اپنے برادر اسلامی ممالک کے ساتھ کھڑا ہے، خاص طور پر ایسے نازک حالات میں۔
وزیراعظم نے ایران میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار بھی کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں صرف اور صرف سفارت کاری، مکالمہ اور افہام و تفہیم ہی ایسے بحرانوں کا دیرپا حل فراہم کر سکتے ہیں، اور یہ وقت ہے کہ تمام فریقین فوری مذاکرات کی جانب پیش قدمی کریں۔
انہوں نے زور دیا کہ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر متحد ہو کر اس بڑھتی ہوئی کشیدگی کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے، اور پاکستان ایک ذمے دار ملک ہونے کے ناطے اس حوالے سے ہر ممکن تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔
ایرانی صدر مسعود پیزشکیان نے پاکستان کی حمایت اور وزیراعظم شہباز شریف کی یکجہتی پر شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ ایران کے عوام اور قیادت کو پاکستان سے ہمیشہ برادرانہ محبت اور اخلاقی سپورٹ ملی ہے، اور موجودہ مشکل وقت میں بھی پاکستان نے جس ہمدردی، حمایت اور تعاون کا مظاہرہ کیا ہے، وہ قابلِ ستائش ہے۔
دونوں رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا کہ امت مسلمہ کو ان حساس حالات میں اتحاد، ہم آہنگی اور مشترکہ لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔
بات چیت کے اختتام پر دونوں رہنماؤں نے قریبی رابطے میں رہنے اور باہمی مشاورت جاری رکھنے پر اتفاق کیا تاکہ مستقبل میں ایسے مسائل کے حل کے لیے مؤثر حکمت عملی اپنائی جا سکے۔