دنیا کے کئی ممالک اب تک خلا میں سائنسی تجربات کا حصہ بن چکے ہیں، اور ان میں 110 سے زائد وہ ہیں جنہوں نے بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر اپنے تجرباتی منصوبے مکمل کیے۔
پاکستان ابھی تک اس فہرست کا باقاعدہ حصہ نہیں بن سکا تھا، لیکن اب یہ صورتحال بدلنے جا رہی ہے۔ ایک پاکستانی نوجوان مہد نیئر، جو اس وقت امریکہ میں پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں، پہلی بار پاکستانی گندم کے بیج خلا میں بھیجنے کے ایک بین الاقوامی منصوبے کا حصہ بنے ہیں۔
مہد نیئر لاہور سے تعلق رکھتے ہیں اور خلا سے متعلق سائنسی میدان میں خاصی مہارت رکھتے ہیں۔ انہوں نے امریکہ کی پرڈیو یونیورسٹی سے ایسٹروڈائنامکس میں تحقیق شروع کی، جہاں وہ سیٹلائٹس کی حرکت اور خلائی ٹریفک کے مؤثر نظم پر کام کر رہے ہیں۔
اُن کی دلچسپی صرف سیارچوں اور مداروں تک محدود نہیں رہی، بلکہ انہوں نے اس جذبے کو پاکستان کی زرعی ترقی سے جوڑنے کی ٹھانی۔
اُن کے اس خواب کی تکمیل اس وقت ممکن ہوئی جب انہیں خلا میں فصلوں کے بیج بھیجنے کے ایک بین الاقوامی پروجیکٹ کا حصہ بننے کا موقع ملا۔
یہ منصوبہ "کارمن” اور "جگوار سپیس” نامی اداروں کی شراکت سے سامنے آیا جو نوجوان سائنس دانوں کو خلا میں تحقیق کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔
ناسا کی معاونت سے یہ تجربہ بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر انجام پائے گا۔ اس منصوبے میں دنیا بھر سے صرف چار ممالک کی فصلیں منتخب کی گئیں، جن میں پاکستان کے ساتھ مصر، آرمینیا اور نائیجیریا شامل ہیں۔
مصر کی طرف سے کپاس، آرمینیا کی جانب سے انار، اور نائیجیریا کی طرف سے ایگوسی خربوزے کے بیج خلا میں بھیجے جا رہے ہیں، جبکہ پاکستان کی نمائندگی گندم کر رہی ہے۔
مہد نیئر نے اس موقع کو سنجیدگی سے لیا اور اپنی یونیورسٹی کے ایک اور پاکستانی طالب علم محمد ہارون کو ساتھ شامل کر لیا۔ محمد ہارون زرعی سائنس کے طالب علم ہیں اور انہوں نے گندم کے بیجوں پر سائنسی تجربے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔
دونوں نے مل کر ایک ایسا سائنسی منصوبہ تیار کیا جس میں گندم کے بیجوں کو مائیکروگریویٹی میں رکھ کر ان کی افزائش، معیار، اور موسمی اثرات کے خلاف ردِعمل کا مطالعہ شامل تھا۔ ان کا تجویز کردہ منصوبہ کارمن اور جگوار سپیس کو بھیجا گیا جہاں سے اسے منظور کر لیا گیا۔
اس تجربے کے تحت پاکستانی گندم کے آٹھ سے دس بیج مخصوص تجرباتی ٹیسٹ ٹیوبز میں رکھ کر بین الاقوامی خلائی سٹیشن روانہ کیے جائیں گے۔
یہ بیج امریکہ میں پہلے ہی تحقیقی مقاصد کے لیے موجود تھے، اس لیے ان کا انتخاب نسبتاً آسان رہا۔ گندم کے بیج اس لیے بھی مناسب سمجھے گئے کیونکہ ان کا سائز خلا میں استعمال ہونے والے تجرباتی آلات میں فٹ آتا ہے۔
مہد نیئر کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے تحقیق کے دوران یہ دیکھا کہ دنیا کے درجنوں ممالک اپنے بیج اور فصلیں خلا میں بھیج چکے ہیں تو انہیں حیرت ہوئی کہ پاکستان جیسا بڑا زرعی ملک کیوں اب تک پیچھے ہے۔ اسی خیال کے تحت انہوں نے یہ قدم اٹھایا تاکہ پاکستان بھی خلا کی دوڑ میں پیچھے نہ رہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ ان کی ذاتی کوشش ہے، اور اس میں حکومت یا کسی پاکستانی ادارے کی مداخلت نہیں۔ نہ انہوں نے کسی سے مالی مدد لی اور نہ کسی سرکاری اجازت یا معاونت کی ضرورت محسوس کی۔
مہد نیئر کے مطابق ان کا اصل مقصد پاکستان کے نوجوانوں میں سائنس، تحقیق، اور خلائی مطالعے کا شوق پیدا کرنا ہے تاکہ آئندہ نسلیں بھی عالمی سائنسی میدان میں اپنا مقام حاصل کر سکیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کے طلبہ صرف زمین تک محدود نہ رہیں بلکہ خلا میں بھی اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں۔
اس تجربے پر خلائی سائنس سے وابستہ پاکستانی ماہرین نے بھی اپنی رائے دی ہے۔ انسٹیٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی اسلام آباد کے پروفیسر ڈاکٹر قمرالاسلام کے مطابق گندم کے بیجوں کو خلا میں بھیجنے کا یہ تجربہ نہایت اہم ہے، کیونکہ مائیکروگریویٹی میں فصلوں کی افزائش اور جینیاتی تبدیلیوں کا مشاہدہ ممکن ہوتا ہے، جو مستقبل میں زرعی ترقی کے لیے انقلابی ثابت ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسی تحقیق موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو سمجھنے اور زرعی اجناس کی بیماریوں کے خلاف قدرتی مدافعت کو بہتر بنانے میں مدد دیتی ہے۔
سپارکو کے ڈاکٹر محمد یاسر نے کہا کہ خلا میں حیاتیاتی تجربات ایک سنجیدہ اور حساس کام ہوتا ہے، جس میں سائنسی مہارت اور بین الاقوامی منظوری شامل ہوتی ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ خلا میں بیج بھیج کر واپس زمین پر ان کی افزائش کے مشاہدے سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خلا کے ماحول نے ان میں کیا فرق ڈالا۔
اس طرح کی تحقیق مستقبل میں نہ صرف زمین پر زرعی نظام کی بہتری میں مدد دیتی ہے بلکہ انسانوں کی خلائی زندگی کے لیے بھی راہیں ہموار کرتی ہے۔