اسلام آباد میں 17 سالہ سوشل میڈیا شخصیت ثنا یوسف کے ملزم عمر حیات نے عدالت میں اپنے جرم کا اعتراف کر لیا۔ مجسٹریٹ سعد نذیر کے روبرو دیے گئے بیان میں ملزم نے یہ تسلیم کیا کہ اس نے ثنا یوسف کو ان کے ملاقات سے انکار پر طیش میں آ کر قتل کر دیا۔
عمر حیات، جو خود بھی ٹک ٹاک پر فعال تھا، نے عدالت کو بتایا کہ وہ ثنا سے پہلی ملاقات کا خواہشمند تھا۔
اس مقصد کے لیے وہ ان کے پاس ایک تحفہ بھی لے کر پہنچا لیکن انہوں نے نہ صرف ملنے سے انکار کیا بلکہ تحفہ بھی واپس کر دیا۔ عمر کے مطابق وہ اس رویے سے بہت دلبرداشتہ ہوا۔
اس واقعے کے بعد دو جون کو ثنا نے دوبارہ ملاقات کے لیے بلایا، مگر جب عمر وہاں پہنچا تو وہ پھر غائب تھیں۔
بار بار رد کیے جانے پر ملزم کی برداشت جواب دے گئی اور وہ انہی کے گھر جا کر ان پر فائرنگ کر کے موقع سے فرار ہو گیا۔
ثنا یوسف کا تعلق چترال سے تھا اور وہ حالیہ عرصے میں سوشل میڈیا پر تیزی سے مقبول ہو رہی تھیں۔ ان کا قتل اسلام آباد کے تھانہ سنبل کی حدود میں پیش آیا۔
واردات کے فوراً بعد اسلام آباد پولیس نے تفتیش شروع کی اور صرف 20 گھنٹوں کے اندر عمر حیات کو فیصل آباد سے گرفتار کر لیا۔
پولیس کے مطابق عمر حیات نے فرار کے لیے بائیک رائیڈر سے لفٹ لی، بعد ازاں لاری اڈا جا کر فیصل آباد جانے والی بس میں سوار ہو گیا۔
دوران تفتیش یہ بات بھی سامنے آئی کہ وہ اسلام آباد پہنچنے کے لیے فارچونر گاڑی کرائے پر لے کر آیا تھا، جو اس نے 29 مئی اور 2 جون کو دو مختلف مرتبہ استعمال کی۔
ملزم نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اس نے ابھی تک گاڑی کا کرایہ ادا نہیں کیا، جبکہ گاڑی فراہم کرنے والا رینٹ اے کار مالک بھی اس کی گرفتاری کے بعد اپنی رقم کے لیے سامنے آ گیا ہے۔
پولیس نے بتایا کہ ملزم کے قبضے سے کچھ زیادہ رقم برآمد نہیں ہوئی، صرف چند سو روپے اس کی جیب میں پائے گئے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ عمر حیات سوشل میڈیا پر خود کو ایک جاگیردار خاندان کا چشم و چراغ ظاہر کرتا رہا، جب کہ حقیقت میں اس کا تعلق ایک درمیانے طبقے کے گھرانے سے ہے۔ اس کا والد ایک سرکاری ملازم تھا، جو گریڈ 16 میں ملازمت سے ریٹائر ہو چکا ہے۔