گزشتہ دنوں امریکی دارالحکومت میں پاکستان اور امریکہ کے اعلیٰ سطحی حکام کے درمیان اہم تجارتی مذاکرات کا ایک سلسلہ ہوا، جس کے بعد پاکستان کے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک نے مذاکرات کو اگلے ہفتے حتمی شکل دینے پر اتفاق کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دونوں فریقین کے درمیان بات چیت نہایت مثبت ماحول میں ہوئی اور مستقبل کے لیے باہمی تعاون پر مکمل ہم آہنگی پائی گئی۔
یہ مذاکرات ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب پاکستان کو اب بھی سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عائد کیے گئے 29 فیصد تجارتی محصولات (ٹیرف) کا سامنا ہے، جس نے پاکستان کی برآمدات کو خاصا متاثر کیا ہے۔
اگرچہ سال 2024 میں پاکستان نے تین ارب ڈالر کا تجارتی سرپلس حاصل کیا، لیکن تجارتی توازن کے قیام کے لیے مزید اقدامات ناگزیر ہیں۔
تجارتی خسارے کو کم کرنے اور محصولات میں نرمی حاصل کرنے کے لیے پاکستان نے کئی اہم تجاویز پیش کی ہیں، جن میں امریکی خام تیل کی درآمدات میں اضافے کے علاوہ مائننگ کے شعبے میں امریکی کمپنیوں کو سرمایہ کاری کی پیشکش بھی شامل ہے۔
اس کا مقصد نہ صرف درآمدات اور برآمدات میں توازن قائم کرنا ہے بلکہ امریکی سرمایہ کاروں کو پاکستانی معیشت میں دلچسپی لینے پر آمادہ کرنا بھی ہے۔
اسی حوالے سے رواں ہفتے دونوں حکومتوں نے مشترکہ طور پر ایک تقریب کی میزبانی بھی کی، جس کا محور پاکستان کے معدنیاتی وسائل اور ان میں بیرونی سرمایہ کاری کے امکانات تھے۔ اس تقریب میں پاکستان کے معروف ریکوڈک منصوبے کو بھی نمایاں کیا گیا، جس کی تخمینہ شدہ مالیت سات ارب ڈالر بتائی جاتی ہے۔
تقریب میں امریکہ کی کئی بڑی کمپنیوں اور سرمایہ کاروں نے شرکت کی، جب کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ماڈل اور پاکستان میں ریگولیٹری اصلاحات پر بھی تفصیلی بات چیت ہوئی۔
ریکوڈک منصوبے میں امریکہ کی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکی ایکسپورٹ امپورٹ بینک اس منصوبے میں 500 ملین سے ایک ارب ڈالر تک کی مالی معاونت کی تجاویز کا سنجیدگی سے جائزہ لے رہا ہے۔
اگر یہ معاہدہ طے پا جاتا ہے تو یہ نہ صرف پاکستان کی معیشت بلکہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی روابط کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہو گا۔
ڈونلڈ ٹرمپ، جو اب بھی امریکہ کے سیاسی منظرنامے میں سرگرم ہیں، نے گزشتہ ہفتے وائٹ ہاؤس میں پاکستانی فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی میزبانی کی۔
ملاقات کے دوران ٹرمپ نے اس بات پر زور دیا کہ معاشی تعاون اور تجارتی روابط نے ماضی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
ان کے بقول، تجارت نہ صرف معیشت کو مستحکم کرتی ہے بلکہ جغرافیائی سیاسی کشیدگیوں کو بھی ختم کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
یہ تمام پیش رفت اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ پاکستان اب عالمی سرمایہ کاروں کے سامنے اپنے قدرتی وسائل، خاص طور پر معدنیات کے شعبے کو ایک نئی اقتصادی جہت میں پیش کر رہا ہے۔