کراچی کے علاقے کلفٹن میں پولیس کی جانب سے ایک گھریلو ملازمہ کی گرفتاری، ابتدا میں محض ایک معمولی واقعہ تصور کیا جا رہا تھا، تاہم جیسے جیسے تفتیش کا دائرہ وسیع ہوا تو ایک حیران کن کہانی نے سب کو چونکا دیا۔
ایک ایسی خاتون جو دکھنے میں عام گھریلو ملازمہ نظر آتی تھی، حقیقت میں نہ صرف بے پناہ دولت کی مالک نکلی بلکہ اس کے زیرِ استعمال قیمتی گاڑیاں، مہنگے برانڈز کے ملبوسات، اور ذاتی ملازمین بھی موجود تھے۔
شہناز نامی اس خاتون کو کراچی پولیس کے اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ اور تھانہ کلفٹن کی مشترکہ کارروائی کے دوران اپر گزری کے علاقے سے حراست میں لیا گیا۔
تفتیش کے دوران انکشاف ہوا کہ وہ گزشتہ پندرہ برسوں سے شہر کے پوش علاقوں میں بطور گھریلو ملازمہ کام کر رہی تھی، لیکن درحقیقت وہ ایک منظم چوری کے نیٹ ورک کی سرغنہ تھی۔
اس نے نہایت چالاکی سے ایسے گھروں کا انتخاب کیا جہاں مالکان غیر ملکی دوروں پر ہوتے یا جہاں اندرونِ خانہ زیورات، نقد رقم اور دیگر قیمتی اشیا رکھی جاتیں۔ ان ہی گھروں سے وہ مسلسل اور منظم انداز میں چوریاں کرتی رہی۔
انسپکٹر سعید احمد تھہیم کے مطابق شہناز نے اپنے چوری شدہ مال سے نہ صرف کئی جائیدادیں خریدیں بلکہ قیمتی گاڑیاں اور دیگر لگژری اشیا بھی اپنے نام پر رجسٹرڈ کروائیں۔
اس کے زیرِ استعمال ایک ہونڈا سوک گاڑی بازیاب کی گئی جس کی مالیت 65 لاکھ روپے کے لگ بھگ ہے، جبکہ ایک سوزوکی آلٹو بھی برآمد ہوئی جس کی قیمت تقریباً 25 لاکھ روپے بتائی جاتی ہے۔
اسی طرح پولیس کو اس کے گھر سے 57 لاکھ 50 ہزار روپے نقدی ملی، اس کے بیٹے آصف سے 2 لاکھ روپے، اور مختلف بینک اکاؤنٹس سے 45 لاکھ 15 ہزار روپے برآمد کیے گئے۔
پولیس کے مطابق ایک موٹر سائیکل بھی قبضے میں لی گئی جو شہناز کے نام پر رجسٹرڈ تھی اور اس کا ذاتی ملازم استعمال کرتا تھا۔ مجموعی طور پر اب تک برآمد ہونے والی املاک، گاڑیوں اور نقدی کی مالیت تقریباً ایک کروڑ 36 لاکھ 65 ہزار روپے تک پہنچ چکی ہے۔
پولیس یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہے کہ آیا شہناز کی ملکیت میں مزید جائیدادیں، گاڑیاں، یا مالیاتی ذرائع بھی موجود ہیں۔ اس مقصد کے لیے اس کے شناختی کارڈ، موبائل فون ڈیٹا اور دیگر ڈیجیٹل ذرائع سے تفتیش کی جا رہی ہے۔
اس تمام صورتحال سے یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ شہناز کا یہ عمل محض انفرادی چوری نہیں بلکہ ایک مکمل جرائم پیشہ گروہ کا حصہ تھا، جو معاشرتی اعتماد کا فائدہ اٹھاتے ہوئے طویل عرصے تک قانون کی نظروں سے بچتا رہا۔
شہناز کے بیٹے آصف کے بارے میں بھی انکشاف ہوا ہے کہ اس نے ایک گروسری اسٹور کھولا تھا، جو بظاہر قانونی کاروبار دکھائی دیتا ہے لیکن پولیس کے مطابق درحقیقت یہ غیر قانونی دولت کو سفید کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔
شہناز نے اپنے ذاتی ڈرائیور حماد کو ملازم رکھا ہوا تھا، جو اس کی نقل و حرکت اور روزمرہ سرگرمیوں میں معاونت کرتا۔
وہ روزانہ صبح گھروں میں صفائی کے لیے نکلتی، مگر شام کو مہنگی گاڑی میں مہنگے ریسٹورنٹس، کافی شاپس اور برانڈڈ شاپنگ مالز کا رُخ کرتی۔ اس کی طرزِ زندگی ایسی تھی جس کا تصور بھی ایک عام گھریلو ملازمہ کے بارے میں نہیں کیا جا سکتا۔
پولیس حکام اس معاملے کو کراچی کی تاریخ کے منفرد مقدمات میں شمار کر رہے ہیں۔ انسپکٹر سعید احمد تھہیم کے بقول یہ صرف ایک خاتون کی چوری کی داستان نہیں بلکہ ایک ایسے نیٹ ورک کی کہانی ہے جو برسوں تک معاشرتی اعتماد کے پردے میں چھپا رہا۔
پولیس اب اس نیٹ ورک کے دیگر ممکنہ شراکت داروں، متاثرین اور جائیدادوں کا سراغ لگانے میں مصروف ہے۔