پاکستان کی سپریم کورٹ، نے ایک اہم آئینی مقدمے میں تحریک انصاف کو دی گئی مخصوص نشستوں کے حوالے سے اپنا پرانا فیصلہ واپس لے لیا ہے۔
آج ایک طویل اور پیچیدہ سماعت کے بعد عدالت عظمیٰ کے 13 رکنی آئینی بینچ نے فیصلہ سنایا کہ مخصوص نشستوں سے متعلق 12 جولائی 2024 کا دیا گیا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ یہ فیصلہ سات ججوں کی اکثریتی رائے سے سنایا گیا، جبکہ پانچ معزز جج صاحبان نے اس فیصلے سے اختلاف کیا۔
آئینی بینچ کی سربراہی جسٹس امین الدین خان کر رہے تھے، جنہوں نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے بتایا کہ نظرثانی کی درخواستوں کو منظور کر لیا گیا ہے اور پرانا فیصلہ اب مؤثر نہیں رہا۔ اس فیصلے کے بعد پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ، جس میں سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستوں کے لیے نااہل قرار دیا گیا تھا، دوبارہ مؤثر ہو گیا ہے۔
مکمل بینچ کے اندر مختلف آراء بھی سامنے آئیں۔ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے الگ سے اختلافی نوٹ لکھنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس محمد علی مظہر نے بھی اقلیتی فیصلے تحریر کیے ہیں، جو جلد منظرعام پر آئیں گے۔
اس آئینی مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس صلاح الدین پنہور نے جمعے کی صبح بینچ سے علیحدگی اختیار کی، جبکہ جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے پہلے ہی دن حکومتی اتحاد کی نظرثانی درخواستوں کو مسترد کرنے کی رائے دی تھی۔
جن جج صاحبان نے نظرثانی کی درخواستوں کو منظور کرنے کے حق میں فیصلہ دیا، ان میں جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس شاہد بلال، جسٹس عامر فاروق، جسٹس ہاشم کاکڑ اور جسٹس علی باقر نجفی شامل ہیں۔ ان ججز کی رائے کو اکثریتی فیصلہ قرار دیا گیا ہے۔
یہ معاملہ تب شروع ہوا جب جولائی 2024 میں سپریم کورٹ کے گیارہ رکنی بینچ نے جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کے لیے اہل قرار دے دیا تھا۔
اس وقت کے فیصلے میں آٹھ ججوں نے اکثریتی رائے دی تھی کہ پی ٹی آئی سنی اتحاد کونسل کے پلیٹ فارم سے مخصوص نشستوں کا حق رکھتی ہے۔ اس فیصلے کے خلاف ن لیگ، پیپلز پارٹی اور الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواستیں دائر کی تھیں، جس پر اب فیصلہ سنایا گیا ہے۔
نئے فیصلے کے تحت تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں سے محروم کر دیا گیا ہے اور سنی اتحاد کونسل کو بھی ان نشستوں کے لیے نااہل قرار دیا گیا ہے۔
قانونی ماہرین اس فیصلے کو نہ صرف ایک بڑا آئینی موڑ قرار دے رہے ہیں بلکہ مستقبل کے انتخابات پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
اس مقدمے میں نظرثانی کی درخواستوں کی منظوری نے یہ ظاہر کیا ہے کہ سپریم کورٹ اپنے ماضی کے فیصلوں پر دوبارہ غور کر سکتی ہے، بشرطیکہ فریقین کی جانب سے واضح قانونی نکات پیش کیے جائیں۔
حکومتی اتحاد، خاص طور پر ن لیگ اور پیپلز پارٹی، نے اس فیصلے کو اپنی بڑی کامیابی قرار دیا ہے، جبکہ تحریک انصاف کی جانب سے عدالتی فیصلے پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ اس فیصلے کے بعد قومی و صوبائی اسمبلیوں میں نشستوں کی نئی تقسیم، قانون سازی، اور سیاسی اتحادوں کی حکمت عملی میں بڑی تبدیلیاں آ سکتی ہیں۔
ساتھ ہی یہ معاملہ آئینی حدود، انتخابی نمائندگی، اور سیاسی اتحادوں کی حیثیت جیسے نکات پر دوبارہ بحث کو جنم دے گا۔
