یقین دہانی اور انصاف کے اصولوں پر مبنی ایک بڑے بین الاقوامی فیصلے میں، ثالثی عدالت نے پاکستان کے مؤقف کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کی کوشش کو مکمل طور پر غیرقانونی قرار دے دیا۔
یہ فیصلہ اس اہم مقدمے میں سامنے آیا ہے جو پاکستان نے 2016 میں اس وقت دائر کیا تھا جب انڈیا نے مغربی دریاؤں پر ایسے آبی منصوبے شروع کیے جنہیں پاکستان نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔
ثالثی عدالت نے اپنے حالیہ فیصلے میں واضح الفاظ میں کہا کہ انڈیا کا یہ دعویٰ کہ وہ معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کر کے عدالت کی کارروائی کو مؤثر انداز میں روک سکتا ہے، معاہدے کی روح اور قانونی حیثیت کی نفی کرتا ہے۔
عدالت کے مطابق معاہدہ صرف دونوں فریقین کی باہمی رضامندی سے معطل کیا جا سکتا ہے، اور کسی ایک ملک کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اکیلے معاہدے کی شرائط پر اثر انداز ہو۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ ثالثی عدالت کا کردار خود معاہدے کے اندر واضح طور پر طے شدہ ہے اور اس کی موجودگی اور فیصلے معاہدے کے نفاذ کو یقینی بنانے کا اہم ذریعہ ہیں۔
دفتر خارجہ پاکستان کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں اس فیصلے کو "پاکستانی مؤقف کی تاریخی توثیق” قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ یہ فیصلہ نہ صرف قانونی انصاف کی فتح ہے بلکہ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی کرنے والے یکطرفہ اقدامات عالمی سطح پر قابل قبول نہیں سمجھے جاتے۔
ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان، سندھ طاس معاہدے پر مکمل عمل درآمد کو اپنی قومی پالیسی کا حصہ سمجھتا ہے، اور اس فیصلے سے انڈیا کو یہ واضح پیغام گیا ہے کہ اب وہ معاہدے کی خلاف ورزی کے نتائج سے بچ نہیں سکے گا۔
اس اہم فیصلے پر وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان ہمسایہ ممالک کے ساتھ پائیدار امن، علاقائی تعاون اور بامقصد بات چیت کا خواہاں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان انڈیا سمیت تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ تمام حل طلب مسائل—جن میں پانی، کشمیر، دہشتگردی، تجارت اور عوامی رابطے شامل ہیں—پر مثبت اور تعمیری مکالمہ چاہتا ہے، مگر یہ اسی وقت ممکن ہے جب معاہدوں کا احترام اور قانون کی بالا دستی کو یقینی بنایا جائے۔
ثالثی عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے یہ بھی واضح کیا کہ انڈیا کا وہ اقدام جس کے تحت اس نے ثالثی کارروائی کو روکنے کی کوشش کی، دراصل سندھ طاس معاہدے کی اُس شق کی کھلی خلاف ورزی تھی جو کہتی ہے کہ اگر کسی مسئلے پر اتفاق نہ ہو، تو اسے ثالثی کے ذریعے حل کیا جائے گا۔
اس بنیاد پر عدالت نے انڈیا کی یہ استدعا کہ ثالثی کارروائی کو معطل کیا جائے، مکمل طور پر مسترد کر دی۔
علاوہ ازیں، عدالت نے یہ بھی نشاندہی کی کہ معاہدے کی شقوں کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد کسی ایک فریق کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ ثالثی عدالت کی کارروائی کو روک سکے یا خود معاہدہ معطل کرنے کا اعلان کرے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ ثالثی کا نظام معاہدے کی شفافیت اور دیرپائی کے لیے نہایت اہم ہے، اور اس کو محدود کرنے کی کسی بھی کوشش کو ناقابل قبول سمجھا جائے گا۔
یاد رہے کہ انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے دعوے نے عالمی سطح پر شدید ردعمل پیدا کیا تھا۔ پاکستان نے یہ معاملہ مستقل عدالت برائے انصاف کے تحت ثالثی عدالت میں اٹھایا تھا، تاکہ اس بات کا فیصلہ کیا جا سکے کہ آیا انڈیا کا اقدام قانونی ہے یا نہیں۔
آج کے فیصلے نے ثابت کر دیا کہ معاہدے کی خلاف ورزی پر خاموشی اختیار کرنا ممکن نہیں، اور بین الاقوامی انصاف کا نظام ان عناصر کو جوابدہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے جو عالمی معاہدوں کو اپنی سیاسی مرضی سے توڑنا چاہتے ہیں۔
پاکستانی ماہرین قانون اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین اس فیصلے کو پاکستان کی بڑی سفارتی کامیابی قرار دے رہے ہیں، جس سے نہ صرف مستقبل میں معاہدے کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے گا، بلکہ اس سے پاکستان کے آبی وسائل کے تحفظ کا ایک نیا قانونی جواز بھی فراہم ہوگا۔