پنجاب اسمبلی میں حالیہ سیاسی ہنگامہ آرائی ایک نئے تنازع کا سبب بنی ہے، جہاں وزیراعلٰی مریم نواز کی تقریر کے دوران حزب اختلاف کے ارکان کی جانب سے شدید نعرے بازی، شور شرابہ اور ایوان میں غیر مہذب رویے کے نتیجے میں 26 اراکین کو پندرہ اجلاسوں سے معطل کر دیا گیا ہے۔
یہ فیصلہ اسپیکر پنجاب اسمبلی احمد خان نے ہفتے کے روز سنایا، جو کہ ایک تحریری حکم نامے کی صورت میں جاری کیا گیا۔
اسپیکر کے مطابق، معطل کیے گئے اراکین نے نہ صرف اسمبلی کے قواعد و ضوابط کی صریح خلاف ورزی کی بلکہ ایوان کی حرمت کو بھی مجروح کیا۔ ان کے بقول، احتجاج کا حق جمہوری نظام کا ایک اہم جزو ہے، تاہم اس کا استعمال آئینی حدود کے اندر رہ کر ہی ممکن ہونا چاہیے۔
انہوں نے واضح کیا کہ اسمبلی کے اجلاس کے دوران کسی بھی قسم کی بدتمیزی، شور و غوغا، دھکم پیل یا سرکاری دستاویزات کو پھاڑنا پارلیمانی روایات کے منافی ہے اور ایسی حرکات کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
سپیکر نے مزید بتایا کہ جن قواعد کی خلاف ورزی ہوئی وہ اسمبلی کے قاعدہ نمبر 210 اور 223 کے تحت آتے ہیں، جو ارکان کے نظم و ضبط اور ایوان کے وقار کو یقینی بنانے کے لیے وضع کیے گئے ہیں۔
اسپیکر نے عالمی سطح پر مروج پارلیمانی اقدار اور اصولوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی جمہوری ادارے کی ساکھ اس کے اندر کے نظم و ضبط اور پارلیمانی اخلاقیات سے جڑی ہوتی ہے، اور پنجاب اسمبلی اس معاملے میں کوئی رعایت نہیں برتے گی۔
اسپیکر احمد خان نے اس واقعے کی شدت کو مدنظر رکھتے ہوئے صرف اجلاسوں سے معطلی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اعلان کیا ہے کہ وہ ان تمام 26 ارکان کے خلاف الیکشن کمیشن کو باقاعدہ ریفرنس بھی بھجوا رہے ہیں تاکہ مزید قانونی کارروائی عمل میں لائی جا سکے۔
ان کے بقول، یہ قدم اس لیے ناگزیر ہو چکا تھا کیونکہ ایوان کے اندر جاری ہنگامہ آرائی اسپیکر کی متعدد وارننگز کے باوجود بند نہیں ہوئی، اور اس کی شدت میں اضافہ ہوتا رہا۔
معطل کیے گئے ارکان میں کچھ ایسے نام بھی شامل ہیں جو حزب اختلاف میں نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں ملک فہد مسعود، محمد تنویر اسلم، سید رفت محمود، یاسر محمود قریشی، کلیم اللہ خان، محمد انصر اقبال، علی آصف، ذوالفقار علی، احمد، مجتبیٰ چودھری اور شاہد جاوید جیسے سیاسی شخصیات شامل ہیں۔
اس کے علاوہ محمد اسماعیل، خیال احمد، شہباز احمد، طیب رشید، امتیاز محمود، علی امتیاز، راشد طفیل، رائے محمد مرتضیٰ اقبال، خالد زبیر نصار، چوہدری محمد اعجاز شفیع، سائمہ کنول، محمد نعیم، سجاد احمد، رانا اورنگزیب، شعیب امیر اور اسامہ اصغر علی گجر بھی اس فہرست کا حصہ ہیں۔
یاد رہے کہ وزیراعلٰی مریم نواز کی تقریر کے دوران جب حزب اختلاف کے اراکین نے شور مچانا شروع کیا تو اسپیکر نے کئی بار ایوان کو خاموش کرانے کی کوشش کی، مگر کوئی بہتری نہ آئی۔
اس دوران نہ صرف ایوان میں آواز بلند کی گئی بلکہ سرکاری کاغذات کو پھاڑنے اور نشستوں سے اٹھ کر آگے بڑھنے جیسے اقدامات بھی دیکھے گئے، جنہیں اسپیکر نے "ناقابل قبول اور غیر پارلیمانی طرز عمل” قرار دیا۔
پنجاب اسمبلی میں یہ کارروائی ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ایوان میں حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان سیاسی کشیدگی پہلے ہی عروج پر ہے۔
یہ اقدام یقیناً حزب اختلاف کی طرف سے مزید ردعمل کو جنم دے سکتا ہے، تاہم اسپیکر کا اصرار ہے کہ ایوان کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی اور نظم و ضبط کو ہر قیمت پر برقرار رکھا جائے گا۔
اسپیکر کی اس سخت کارروائی سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ پنجاب اسمبلی میں اب کسی بھی قسم کی بدنظمی یا ہنگامہ آرائی کی گنجائش باقی نہیں رہی، اور جو بھی رکن اسمبلی آئندہ ایسی حرکتوں میں ملوث پایا گیا اس کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی جائے گی تاکہ ایوان کا تقدس برقرار رکھا جا سکے۔