پاکستان میں غذائی قلت کا سامنا کرنے والے خاندانوں کے لیے ایک بڑی خوشخبری سامنے آئی ہے، کیونکہ شاہ سلمان ہیومینیٹیرین ایڈ اینڈ ریلیف سینٹر نے سال 2025 کے لیے فوڈ سکیورٹی سپورٹ پراجیکٹ کے تیسرے مرحلے کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے۔
اس منصوبے کا مقصد پاکستان کے پسماندہ اور ضرورت مند طبقات کو خوراک کی فراہمی یقینی بنانا اور ان کی بنیادی ضروریات کو مؤثر انداز میں پورا کرنا ہے۔
اس منصوبے کے تحت رواں مرحلے میں مجموعی طور پر 30 ہزار غذائی پیکجز تقسیم کیے جائیں گے، جو ملک کے 34 ایسے اضلاع میں پہنچائے جائیں گے جہاں غذائی عدم تحفظ کی شرح نسبتاً زیادہ ہے۔
ان امدادی پیکجز سے اندازاً دو لاکھ دس ہزار سے زائد افراد فائدہ اٹھائیں گے، جو کہ ایک غیر معمولی اقدام ہے۔ ہر فوڈ پیک تقریباً 95 کلوگرام پر مشتمل ہوگا جس میں فائن آٹے، دال، خوردنی تیل اور چینی جیسی بنیادی خوراکی اشیاء شامل ہوں گی۔ ان اشیاء کو اس انداز سے ترتیب دیا گیا ہے کہ یہ ایک متوسط خاندان کی پورے مہینے کی خوراک کی ضروریات پوری کر سکیں۔
یہ اعلان اسلام آباد میں واقع سعودی سفارت خانے میں منعقد ایک خصوصی تقریب کے دوران کیا گیا، جہاں پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید المالکی، وفاقی وزیر برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق رانا تنویر حسین، اور شاہ سلمان ریلیف سینٹر پاکستان کے کنٹری ڈائریکٹر عبداللہ البقمی موجود تھے۔ اس موقع پر نمائشی طور پر مستحق افراد میں فوڈ پیکجز تقسیم کیے گئے تاکہ امدادی کاموں کا عملی آغاز علامتی طور پر بھی کیا جا سکے۔
اس منصوبے کی سب سے نمایاں بات یہ ہے کہ یہ شاہ سلمان ریلیف سینٹر کی اُس بین الاقوامی کاوش کا حصہ ہے جس کا مقصد دنیا بھر میں انسانیت کی خدمت کو فروغ دینا ہے۔
یہ ادارہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ مختلف ممالک میں قدرتی آفات، جنگی بحرانوں، اور معاشی بدحالی سے دوچار افراد کی مدد کے لیے ہمہ وقت سرگرم رہتا ہے۔ پاکستان میں اس مرکز کی موجودگی سعودی عرب کے ان دیرینہ جذبات کی عکاسی کرتی ہے جو وہ ہمیشہ سے پاکستانی قوم کے لیے رکھتا آیا ہے۔
سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ پاکستانی حکومت اور اس کے عوام کے ساتھ مل کر اس عظیم انسانی مشن کا حصہ بن رہے ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ سعودی حکومت، خادمِ حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد و وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان کی سربراہی میں ہمیشہ انسانی ہمدردی، خیرسگالی اور اسلامی بھائی چارے کے اصولوں پر کاربند رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ صرف خوراک کی فراہمی نہیں بلکہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد، اخوت اور محبت کے اس بندھن کی تجدید ہے جو عشروں پر محیط ہے۔
اس موقع پر وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے اپنے خطاب میں سعودی عرب کی حکومت، عوام، اور بالخصوص شاہ سلمان ریلیف سینٹر کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کا رشتہ خالصتاً مذہبی، روحانی اور برادرانہ بنیادوں پر قائم ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک نے ہمیشہ ہر آزمائش میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے، اور موجودہ منصوبہ بھی اسی مسلسل تعاون کا تسلسل ہے۔
رانا تنویر حسین نے اس بات پر زور دیا کہ یہ منصوبہ نہ صرف غذائی کمی کا ازالہ کرے گا بلکہ اس سے ان علاقوں میں رہنے والے وہ طبقات جو کئی برسوں سے غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں، ان کی صحت، معیاری خوراک تک رسائی اور زندگی کے معیار میں بہتری ممکن ہو سکے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں موجود سعودی سفارت خانہ اور شاہ سلمان ریلیف سینٹر نے اس پراجیکٹ کی تیاری، عملدرآمد اور تقسیم کے تمام مراحل میں غیرمعمولی سنجیدگی اور محنت سے کام کیا ہے، جس پر وہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں۔
یہ منصوبہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA)، صوبائی سطح کی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز اور مقامی حکومتوں کے تعاون سے نافذ کیا جا رہا ہے تاکہ امداد شفاف انداز میں حقیقی مستحقین تک پہنچ سکے۔
مستحق خاندانوں کی نشاندہی کے لیے مقامی سطح پر سروے اور انتظامی مدد کو بھی بروئے کار لایا جائے گا تاکہ امدادی اشیاء صحیح افراد تک پہنچیں اور کسی قسم کی کوتاہی نہ ہو۔
یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ یہ تیسرا مرحلہ ان دو ابتدائی مراحل کی کامیاب تکمیل کے بعد شروع کیا گیا ہے، جن کے دوران مجموعی طور پر پانچ ماہ کے عرصے میں پاکستان کے 61 اضلاع میں 60 ہزار فوڈ پیکجز تقسیم کیے گئے تھے۔ ان اضلاع میں بلوچستان، سندھ، پنجاب، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر شامل تھے۔
شاہ سلمان ریلیف سینٹر کا یہ فوڈ سکیورٹی پروگرام اس بات کا بین ثبوت ہے کہ سعودی عرب نہ صرف اسلامی دنیا میں اپنی قیادت کے فرائض انجام دے رہا ہے بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں انسانی وقار کی بحالی، معاشی بحالی، اور بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کے لیے عملی اقدامات بھی کر رہا ہے۔ پاکستان میں اس مرکز کی سرگرمیاں، خلوص، محبت اور ہم دردی کا عملی نمونہ ہیں جو دونوں اقوام کو صرف وقتی فوائد نہیں بلکہ دیرپا اعتماد اور دوستی کے مضبوط رشتے میں باندھتی ہیں۔