اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے دائر کردہ ایک درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے 27 ایسے یوٹیوب چینلز کو بلاک کرنے کا حکم جاری کیا ہے، جن پر ریاستی اداروں کے خلاف مبینہ طور پر گمراہ کن، نفرت انگیز اور اشتعال دلانے والا مواد نشر کرنے کا الزام ہے۔ اس عدالتی فیصلے نے پاکستان میں سوشل میڈیا کی آزادی، اظہار رائے کی حدود اور ریاستی اداروں کے احترام کے درمیان جاری کشمکش کو ایک مرتبہ پھر منظرِ عام پر لا دیا ہے۔
عدالت میں جمع کرائے گئے تحریری حکم نامے میں جوڈیشل مجسٹریٹ نے اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا کہ ایف آئی اے کی جانب سے پیش کیے گئے شواہد بادی النظر میں اس قدر مضبوط اور واضح ہیں کہ ان کی بنیاد پر قانونی کارروائی مکمل طور پر جائز اور قابلِ عمل ہے۔
ایف آئی اے نے مؤقف اپنایا تھا کہ مذکورہ یوٹیوب چینلز مختلف ویڈیوز، تبصروں اور تجزیوں کے ذریعے پاکستان کے ریاستی ڈھانچے، خاص طور پر فوج، عدلیہ اور خفیہ اداروں کے خلاف نفرت آمیز اور متنازع بیانیہ پھیلا رہے ہیں، جس سے نہ صرف قومی سلامتی کو نقصان پہنچ سکتا ہے بلکہ ملک میں سیاسی عدم استحکام اور عوامی اشتعال کا خدشہ بھی پیدا ہو رہا ہے۔
درخواست کے مطابق، ان چینلز پر ایسے بیانیے کو فروغ دیا جا رہا تھا جو ریاست کے بنیادی اداروں کے خلاف عوامی بداعتمادی پیدا کرنے کا باعث بن سکتے تھے۔
درخواست میں عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ ان چینلز کے ذریعے بارہا ایسی ویڈیوز اور مواد شائع کیا گیا جن میں جان بوجھ کر عوام کو بھڑکانے، عوامی جذبات کو مشتعل کرنے اور ریاستی نظم و نسق کو چیلنج کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس حوالے سے ایف آئی اے کے سائبر کرائم سرکل نے باقاعدہ انکوائری کا آغاز جون کی ابتدا میں کیا تھا، جس کے بعد اس درخواست کو عدالت میں دائر کیا گیا۔
درخواست کے ہمراہ ایسی ویڈیوز کے اسکرین شاٹس، ٹرانسکرپٹس اور دیگر تکنیکی شواہد بھی عدالت میں پیش کیے گئے جن میں مبینہ طور پر قابلِ اعتراض مواد موجود تھا۔
ان شواہد کی بنیاد پر عدالت نے یوٹیوب کو چلانے والی کمپنی کے پاکستان میں موجود نمائندہ افسر کو ہدایت جاری کی کہ ان 27 چینلز کی رسائی کو فوری طور پر بند کیا جائے تاکہ مزید اشتعال انگیزی، عوامی بے چینی یا ریاست مخالف بیانیے کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔
ان چینلز کی فہرست میں کئی نامور صحافیوں، سیاسی تجزیہ نگاروں، سوشل میڈیا ایکٹوسٹس اور یہاں تک کہ ایک بڑی سیاسی جماعت کا باضابطہ یوٹیوب پلیٹ فارم بھی شامل ہے۔
مذکورہ فہرست میں مطیع اللہ جان، صدیق جان، اوریا مقبول جان، ساجد گوندل، عمران ریاض خان، اسد طور، آفتاب اقبال، صابر شاکر، عبدالقادر، احمد نورانی، معید پیرزادہ، شایان علی، نیا پاکستان، ڈیلی قدرت اور پاکستان تحریک انصاف کا آفیشل یوٹیوب چینل بھی شامل ہیں۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ ان چینلز پر نشر کیا جانے والا مواد ریاستی اداروں کے خلاف نفرت پھیلانے کے ساتھ ساتھ معاشرتی ہم آہنگی کو سبوتاژ کرنے کا ذریعہ بھی بن رہا ہے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ اس قسم کے ویڈیوز عوام کے ذہنوں میں اداروں کے بارے میں شکوک و شبہات اور بداعتمادی کو جنم دے رہے ہیں، جو نہ صرف سوشل میڈیا کی اخلاقیات کے خلاف ہے بلکہ ملکی مفادات کے بھی منافی ہے۔
ایف آئی اے کی طرف سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ موجودہ حالات میں جب ملک سیاسی غیر یقینی کا شکار ہے اور سوشل میڈیا پر افواہوں اور ریاستی اداروں کے خلاف منظم مہمات زور پکڑ چکی ہیں، ایسے میں ان چینلز کی بندش قومی سلامتی اور ریاستی استحکام کے لیے ناگزیر ہو چکی ہے۔
ایف آئی اے کا مزید کہنا تھا کہ اگر ان چینلز پر پابندی نہ لگائی گئی تو یہ سلسلہ مزید شدت اختیار کر سکتا ہے، جس سے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔
یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا ہے جب ملک میں اداروں کے خلاف تنقیدی مہمات، افواہوں اور گمراہ کن اطلاعات کی بھرمار نے سوشل میڈیا کو ایک انتہائی حساس میدان بنا دیا ہے۔ اس تناظر میں عدالت کا یہ اقدام ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے، جو ریاستی نظم کو مضبوط کرنے، قانون کی عملداری قائم رکھنے اور آن لائن معلومات کے بہاؤ کو ضابطے میں لانے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
تاہم، اس فیصلے نے اظہار رائے کی آزادی کے حامی حلقوں میں بھی ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ آیا ایسا اقدام ضروری تھا یا یہ رائے اور تنقید کی آزادی پر قدغن سمجھا جائے گا۔
اس عدالتی فیصلے سے واضح ہوتا ہے کہ ریاست اب سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلنے والے مواد کو سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے اور ایسے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کے لیے تیار ہے جو ملک کے اداروں کے خلاف نفرت یا انتشار کا ذریعہ بن رہے ہیں۔