بلاول بھٹو زرداری نے بھارتی میڈیا کو دیے گئے انٹرویو میں واضح کہا کہ پاکستان کسی بھی صورت میں دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتا—نہ ملک کے اندر اور نہ ہی بیرونِ ملک۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے گزشتہ کئی دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کی ہے، جس میں ۹۲ ہزار سے زائد پاکستانی شہید ہوئے۔
۲۰۲۴ میں ملک بھر میں دہشت گردی کے تقریباً ۲۰۰ واقعات رپورٹ ہوئے جن میں ۱۲۰۰ سے زیادہ افراد جان سے گئے—یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے اندوہناک سال رہا۔ بلاول نے اپنی ذاتی تجربات کی داستان سناتے ہوئے پہلگام حملے کا ذکر کیا، جس نے اُن کے دل پر گہرا اثر چھوڑا۔
بلاول کا کہنا تھا کہ لشکرِ جھنگوی، لشکرِ طیبہ، القاعدہ، داعش اور بی ایل اے جیسے گروہ شروع میں سرد جنگ کے دوران “فریڈم فائٹرز” کے طور پر دیکھے گئے، جنہیں افغان جہاد سے وابستہ سمجھا جاتا تھا۔ تاہم نائن الیون کے بعد یہ گروہ دہشت گرد قرار دیے گئے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ عالمی طاقتوں، بشمول جنرل ضیا الحق کے دورِ حکومت نے انہیں جہاد کا رنگ دیا، جس کے نتیجے میں خطے میں دہشت گردی کا طویل ارتقاء ہوا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اصولی طور پر پاکستان نے ان گروہوں کے خلاف کارروائی کی اور FATF (فنڈنگ ٹاسک فورس) نے بھی ان اقدامات کی توثیق کی ہے۔ دستاویزات کے مطابق ۲۶۴۵ مقدمات درج ہوئے، ۲۷۲۷ ملزمان کو گرفتار کیا گیا، اور ۵۴۹ کو سزا دی گئی، جس میں حافظ سعید کو دہشت گردی کے مالی وسائل فراہم کرنے پر ۳۱ سال کی سزا ہوئی۔
ممبئی اور سمجھوتا ایکسپریس حملوں کا ذکر کرتے ہوئے بلاول نے کہا کہ ان میں پاکستان ملوث ہونے کے بھارتی الزامات بے بنیاد ہیں۔ بھارت عدالتی کارروائی سے گریز کر رہا ہے، گواہان پیش نہیں کر رہا، اور اعترافی بیانات واپس لے لیے گئے۔
بلاول نے کہا کہ پاکستان عدالتوں میں چلے ہوئے معاملوں میں مکمل شفافیت اور تعاون کر رہا ہے، اور بھارت کو بھی ایسا کرنے کی دعوت ہے—اگر بھارت تعاون کرے تو آن لائن گواہوں کی فراہمی کا راستہ کھلے گا۔
جعفر ایکسپریس خودکش حملے کا ذمے دار بھارت کی انٹیلیجنس ایجنسی قرار دیتے ہوئے بلاول نے کہا کہ پاکستان کے پاس اس کا ٹھوس ثبوت ہے، بشمول کلبھوشن یادیو کے معاملے میں بھارت کے ملوث ہونے کے شواہد۔
انہوں نے کہا کہ یہ حملے بھارت کی حمایت سے ہونے والے دہشت گردی کی شروعاتی علامات ہیں، اور پاکستان نے ہمیشہ دہشت گردی کے خلاف مربوط کارروائیاں کی ہیں۔
بلاول نے مزید کہا کہ پاکستان اور بھارت نے ۲۰۱۲ میں دہشت گردانہ اطلاعات کے تبادلے پر اتفاق کیا تھا، جس سے متعدد حملے پہلے روکے جا سکے۔ وہ پُرامید ہیں کہ بدلتے حالات میں دونوں ممالک مکمل مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گے تاکہ خطے سے دہشت گردی کا نقصان دور کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے پیش کی جانے والی تمام رپورٹس شفاف اور ٹھوس ہیں، اور بھارت کو چاہیئے کہ وہ متعصبانہ موقف کے بجائے عالمی معیارات کو تسلیم کرے۔
بلاول نے یورپی عراق و افغان تجربات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جہاں خطرناک گروہوں کو جنگوں کے بعد زوال آتا ہے، لیکن جیسے القاعدہ کی جگہ داعش نے اپنی شبیہ دوبارہ بنائی ہے، اسی طرح دہشت گرد عناصر جنوبی ایشیا میں موجود رہیں گے۔
لہٰذا ضروری ہے کہ وہ تسلسل کے ساتھ، اصولی اور عزم کے ساتھ سماجی اور سیاسی سطح پر انسدادِ دہشت گردی جاری رہے۔ انہوں نے بتایا کہ FATF کی رپورٹ نے اس عزم کو سراہا ہے اور عالمی کمیونٹی نے پاکستانی اقدامات کو تصدیق دی ہے۔
بلاول بھٹو کا مطالبہ ہے کہ بھارت بھی اپنے اندر کی سچائیوں کو تسلیم کرے، تعصب ترک کرے اور سنجیدہ مذاکرات میں شامل ہو، تاکہ پانی، کشمیر، دہشت گردی جیسے مسائل کو حل کیا جا سکے اور جنوبی ایشیا ایک دہشت گردی سے پاک خطہ بن سکے۔