پاکستان کے ڈپٹی وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار 11 جولائی بروز جمعرات ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں ہونے والے آسیان ریجنل فورم (ARF) کے 32ویں وزارتی اجلاس میں شرکت کریں گے، جہاں وہ پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے اہم عالمی و علاقائی امور پر پاکستان کا مؤقف پیش کریں گے۔
یہ اجلاس نہ صرف خطے میں سیاسی استحکام اور سیکیورٹی معاملات پر گفتگو کے لیے منعقد کیا جا رہا ہے، بلکہ یہ ایشیا پیسیفک کے 27 رکن ممالک کے وزرائے خارجہ، سینئر نمائندوں اور آسیان (ASEAN) کے سیکریٹری جنرل کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرے گا، تاکہ اجتماعی طور پر ان چیلنجز کا حل تلاش کیا جا سکے جو موجودہ دور میں خطے کو درپیش ہیں۔
ڈپٹی وزیراعظم اس اجلاس میں پاکستان کی طرف سے پرامن بقائے باہمی، سفارتی حل کی ترجیح اور بین الاقوامی تعاون کے فروغ جیسے اصولوں کو اجاگر کریں گے۔ وزارتِ خارجہ کے مطابق، اسحاق ڈار فورم کے شرکاء کو پاکستان کے نقطۂ نظر سے آگاہ کریں گے کہ کس طرح پاکستان عالمی سطح پر امن و سلامتی کے قیام کے لیے مل کر کام کرنے کو تیار ہے۔
اس فورم میں ان کی شرکت کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ وہ مختلف ممالک کے وزرائے خارجہ کے ساتھ دو طرفہ ملاقاتیں بھی کریں گے، جن میں خاص طور پر ملائیشیا کے وزیر خارجہ سے علیحدہ ملاقات طے ہے۔ ان ملاقاتوں میں تجارتی، سفارتی، اقتصادی، تعلیمی اور ثقافتی تعاون کو فروغ دینے کے مواقع پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
کوالالمپور میں اپنے قیام کے دوران، اسحاق ڈار وہاں موجود پاکستانی برادری سے بھی ملاقات کریں گے۔ وہ نہ صرف ان کی مشکلات اور مسائل سنیں گے بلکہ حکومت پاکستان کی پالیسیوں اور بیرونِ ملک پاکستانیوں کے لیے اٹھائے گئے اقدامات سے بھی آگاہ کریں گے۔ یہ ملاقاتیں قومی یکجہتی اور بیرون ملک پاکستانیوں سے حکومتی رابطے کی مضبوطی کے لیے نہایت اہم تصور کی جا رہی ہیں۔
آسیان ریجنل فورم (ARF) کا قیام 1994 میں عمل میں آیا تھا، اور یہ فورم آج ایشیا پیسیفک خطے میں سیاسی اور سیکیورٹی مشاورت کے حوالے سے ایک انتہائی معتبر اور موثر عالمی پلیٹ فارم سمجھا جاتا ہے۔
اس فورم میں شامل ممالک خطے کے مسائل کے پرامن حل، باہمی تعاون، اعتماد سازی اور سفارتی روابط کو فروغ دینے کے لیے باقاعدگی سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔
پاکستان کی اس فورم میں شرکت اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ ملک نہ صرف علاقائی اور عالمی سطح پر ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہے بلکہ وہ دنیا کے ساتھ مل کر موجودہ مسائل کے حل، غربت کے خاتمے، تجارتی ترقی، سیکیورٹی تعاون اور پائیدار ترقی کے ہدف کے لیے متحرک اور سنجیدہ ہے۔