جب مزمل عباسی (فرضی نام) تیس برس بعد وطن لوٹے تو ان کے گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، مگر ان کی آنکھوں میں برسوں کی تھکن، دل میں چھپی مایوسی اور چہرے پر وقت کی گہرائی صاف دکھائی دیتی تھی۔ وہ جب رخصت ہوئے تھے، تو جوان تھے، مگر اب ان کے بالوں میں سفیدی اور چال میں اداسی آ چکی تھی۔
یہ واپسی محض کسی پردیسی کی گھر واپسی نہ تھی، بلکہ ایک تلخ داستان کا اختتام تھا جس کا آغاز ہوا تھا صرف ایک خواب سے — بہتر زندگی کا خواب۔
یہ کہانی ہے مری سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان کی جو 1995 میں، اپنی شادی کے صرف چھ ماہ بعد، یورپ جانے کی خواہش میں ایسے راستے پر نکل پڑا جس کی منزل نہ واضح تھی، نہ محفوظ۔
ایک ایجنٹ نے انہیں قائل کیا کہ برطانیہ تک کا سفر آسان ہے، چند سرحدیں عبور کرنی ہیں، اور وہاں پہنچتے ہی زندگی سنور جائے گی۔ مگر سچ یہ تھا کہ یہ سفر نہ صرف طویل تھا بلکہ جان جوکھم میں ڈالنے والا بھی۔
مزمل عباسی ایران، ترکی، بلغاریہ، فرانس جیسے ملکوں سے گزرتے ہوئے برطانیہ پہنچے۔ یہ تمام راستے غیرقانونی تھے، اور ہر موڑ پر خطرہ چھپا ہوا تھا — کبھی پولیس کی آنکھ سے بچنا، کبھی انسانی سمگلرز کی زیادتیوں سے۔ آخرکار وہ انگلینڈ کی سرزمین تک تو پہنچ گئے، لیکن اصل آزمائشیں تو وہیں سے شروع ہوئیں۔
برطانیہ میں ان کی حیثیت ایک غیرقانونی تارکِ وطن کی تھی۔ پاس کوئی قانونی کاغذ نہ تھا، اس لیے باقاعدہ نوکری کا سوال ہی نہیں اٹھتا تھا۔
وہ چپکے چپکے ہوٹلوں میں پلیٹیں دھوتے، سڑکوں کی صفائی کرتے یا گاڑیاں دھوتے رہے۔ سارا کام نقد پر ہوتا، کوئی تحریری ریکارڈ نہیں، کیونکہ انکشاف کا مطلب تھا گرفتاری اور ممکنہ ملک بدری۔
ان کی زندگی محض جسمانی مشقت تک محدود نہ رہی، بلکہ ذہنی اذیتوں نے انہیں اندر سے توڑنا شروع کر دیا۔ اگر کبھی طبیعت خراب ہو جاتی، بخار ہوتا یا درد ہوتا، تو ہسپتال جانا ممکن نہ تھا۔ ایک چھوٹی سی دوا سے ہی گزارا کرنا پڑتا، کیونکہ اسپتال جانا گویا قانون کے ہتھے چڑھنے کے مترادف تھا۔
پانچ سال گزرنے کے بعد جب انہوں نے دیکھا کہ مستقل سکونت تو دور، آرام سے جینے کا حق بھی میسر نہیں، تو ان کے دل و دماغ میں شدید تذبذب نے جنم لیا۔
وہ کئی بار سوچنے لگے کہ کیوں نہ خود کو امیگریشن حکام کے حوالے کر کے سب کچھ ختم کر دیا جائے۔ مگر دوستوں نے روک دیا — انہیں ڈرایا کہ ایسا کرنے پر وہ سیدھے جیل جائیں گے۔ اس خوف نے انہیں مزید چھپنے پر مجبور کر دیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ انہوں نے وطن میں اپنے خاندان سے رابطہ تقریباً منقطع کر دیا۔ کبھی کبھار محض ایک پیغام بھیجتے کہ خیریت سے ہوں مگر کچھ بھیجنے کے قابل نہیں۔ ان کے گھر والے فکر مند تھے، ان کی بیوی، ان کے ماں باپ، سب انتظار میں تھے۔
پھر ایک دن خبر ملی کہ ان کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی ہے۔ مزمل کہتے ہیں کہ "اس لمحے میرا دل جیسے ریزہ ریزہ ہو گیا، میں گھر کو، اپنے بیٹے کو، سب کو دیکھنا چاہتا تھا، لیکن بے بسی کی حد تھی۔”
واپسی کا کوئی راستہ نہ تھا۔ انہوں نے کئی بار غیرقانونی طریقے سے پاکستان آنے کی کوشش کی مگر ہر بار ناکام رہے۔ یوں تیس سال بیت گئے۔ بالآخر ایک قریبی دوست کی مدد سے، قانونی دستاویزات مکمل کر کے، وہ پچھلے ماہ پاکستان واپس پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔
جب وہ اپنے گھر پہنچے تو ماحول جذبات سے بھر گیا۔ ان کا بیٹا، جو اب ایک نوجوان ہے، اپنے والد کو دیکھ کر حیران بھی تھا اور خوش بھی۔
مزمل کی بیوی نے جب اپنے شوہر کو دیکھا تو وہ بھی لمحے بھر کے لیے خاموش رہ گئیں۔ وہ جوانی میں گیا تھا، اب ایک بوڑھا شخص ان کے سامنے کھڑا تھا۔
مزمل عباسی کو اب اپنی ماضی کی غلطی پر پچھتاوا ضرور ہے۔ وہ مانتے ہیں کہ غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جانا ایک ایسی بھول تھی جس نے انہیں اپنوں سے دور کر دیا، انہیں معاشرتی تحفظ، عزت اور سکون سے محروم کر دیا۔ مگر وہ اب اس عزم کے ساتھ وطن لوٹے ہیں کہ بقیہ زندگی قانون کے دائرے میں رہ کر گزاریں گے۔
پاکستان میں ہر سال ہزاروں نوجوان ایسے ہی خوابوں کے پیچھے "ڈنکی” لگا کر یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ کامیاب ہو جاتے ہیں، مگر اکثریت اُنہی اذیت ناک حالات کا شکار ہوتی ہے جن کا مزمل عباسی نے سامنا کیا۔
اسی تشویشناک رجحان کو روکنے کے لیے پاکستانی حکومت نے اب کئی سخت اقدامات کیے ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ جو بھی شخص غیرقانونی طریقے سے بیرون ملک جائے گا، اس کا نام پانچ سال کے لیے پاسپورٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کر دیا جائے گا، تاکہ وہ بین الاقوامی سفر نہ کر سکے۔
مزید یہ کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے متعدد ایجنٹوں کو گرفتار کیا ہے جو نوجوانوں کو سبز باغ دکھا کر غیرقانونی راستوں پر گامزن کرتے تھے۔ انسانی اسمگلنگ کے خلاف مہم اب نہ صرف مرکز بلکہ صوبوں کے تعاون سے بھی جاری ہے۔
میجر (ر) بیرسٹر ساجد مجید، جو امیگریشن قوانین کے ماہر ہیں، کہتے ہیں کہ آج کی دنیا صرف آپ کے بیانات پر یقین نہیں کرتی۔ جعلی کیسز، جھوٹے سیاسی دعوے اور بوگس دستاویزات اب قابلِ قبول نہیں رہیں۔ اگر قانونی حیثیت نہیں ہے، تو آپ کو ہر حال میں غیر قانونی تصور کیا جائے گا۔
ساجد مجید کا کہنا ہے کہ ایسے تارکین وطن مجرموں کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔ نہ وہ آزادی سے کام کر سکتے ہیں، نہ بیماری میں علاج کروا سکتے ہیں، اور نہ ہی اپنے اہل خانہ سے رابطے میں رہ سکتے ہیں۔ کئی کئی سال وہ نہ صرف اپنی شناخت سے محروم رہتے ہیں، بلکہ عزت اور وقار سے بھی۔
آج مزمل عباسی جیسے ہزاروں افراد نوجوان نسل کو خبردار کرنے کے لیے جیتی جاگتی مثال ہیں۔ ان کا پیغام واضح ہے: خواب دیکھنا جرم نہیں، مگر ان خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے قانون کا راستہ اختیار کرنا ہی واحد محفوظ طریقہ ہے۔ کیونکہ غیر قانونی راستے نہ صرف آپ کی جان کو خطرے میں ڈالتے ہیں، بلکہ آپ کی پوری زندگی کو بربادی کے دہانے پر بھی لے جا سکتے ہیں۔