پاکستانی فضائیہ کی عالمی سطح پر ساکھ کی بحالی اور قومی ایئرلائنز کی بین الاقوامی پروازوں کی بحالی کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔
برطانوی محکمہ ٹرانسپورٹ کی جانب سے ایک اعلیٰ سطحی ٹیم نے حال ہی میں اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر سکیورٹی انتظامات کا تفصیلی معائنہ مکمل کر لیا ہے۔
تین ارکان پر مشتمل یہ وفد 8 جولائی کو اسلام آباد پہنچا تھا اور تین روزہ دورے کے دوران مختلف سکیورٹی اقدامات، عملے کی تیاری اور حفاظتی نظام کے تمام پہلوؤں کا مشاہدہ کیا گیا۔
ایئرپورٹ سکیورٹی فورس (اے ایس ایف) کے مطابق، برطانوی وفد نے اپنی انسپیکشن کے دوران جو جائزہ لیا، اسے مجموعی طور پر اطمینان بخش قرار دیا۔
اس معائنے میں خصوصی توجہ اس بات پر دی گئی کہ کیا پاکستان کا سب سے مصروف بین الاقوامی ہوائی اڈہ عالمی ایوی ایشن سکیورٹی معیار پر پورا اترتا ہے یا نہیں۔
انسپیکشن کے آغاز پر ایک افتتاحی اجلاس منعقد ہوا جس میں ایئرپورٹ کے چیف سکیورٹی افسر سمیت اہم اداروں کے نمائندگان شریک ہوئے۔ اجلاس میں سکیورٹی حکمت عملی، آپریشنل تیاری، ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے اختیار کی گئی پالیسیوں اور ایمرجنسی پروٹوکولز پر روشنی ڈالی گئی۔
دورے کے دوران برطانوی ماہرین نے مسافروں کی اسکریننگ، داخلی راستوں پر کنٹرول، سامان کی چیکنگ، کوئیک رسپانس فورس (QRF) کی کارکردگی، ڈرون حملوں کے ممکنہ خدشات سے نمٹنے کے اقدامات اور ہنگامی صورتحال میں ردِعمل جیسے معاملات کا قریب سے جائزہ لیا۔
اے ایس ایف نے اس موقع پر مکمل تیاری کے ساتھ تمام انتظامات پیش کیے تاکہ کسی بھی پہلو سے سکیورٹی کی کمی کا شائبہ نہ رہے۔
برطانیہ کے محکمہ ٹرانسپورٹ کی طرف سے ایسے دورے معمول کا حصہ ہوتے ہیں، اور یہ دنیا بھر میں اُن ہوائی اڈوں پر کیے جاتے ہیں جہاں سے برطانیہ کے لیے براہ راست پروازیں روانہ ہوتی ہیں۔
اس کا مقصد مسافروں کی حفاظت، دہشتگردی کے خطرات کو کم کرنے اور فضائی سلامتی کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ تاہم، پاکستان کے تناظر میں یہ معائنہ خاص اہمیت رکھتا ہے۔
یاد رہے کہ مئی 2020 میں کراچی میں پیش آنے والے پی آئی اے کے افسوسناک حادثے کے بعد اُس وقت کے وفاقی وزیر برائے ہوابازی نے قومی اسمبلی میں یہ بیان دیا تھا کہ تقریباً 30 فیصد پاکستانی پائلٹس جعلی یا مشکوک لائسنس کے حامل ہیں۔ یہ بیان عالمی سطح پر پاکستان کی ہوابازی صنعت کے لیے ایک بہت بڑا دھچکہ ثابت ہوا۔
اس انکشاف کے فوراً بعد یورپی یونین، امریکہ اور برطانیہ سمیت کئی ممالک نے پاکستانی ایئر لائنز کی اپنی فضائی حدود میں آمد و رفت پر پابندیاں عائد کر دیں۔ سب سے زیادہ متاثر پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (PIA) ہوئی جس کی یورپی اور برطانوی روٹس بند کر دیے گئے۔
اس پابندی کے بعد پاکستان نے چار سالہ اصلاحاتی سفر کا آغاز کیا۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی نے پائلٹس کے لائسنسنگ کے عمل کو از سرِ نو ترتیب دیا، نگرانی کے نظام میں بہتری لائی گئی اور مختلف عالمی ایوی ایشن اداروں کے ساتھ تعاون بڑھایا گیا۔
ان کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ نومبر 2024 میں یورپی یونین نے پی آئی اے پر عائد پابندی ہٹا دی، جس کے بعد جنوری 2025 میں پی آئی اے نے پہلی براہ راست پرواز اسلام آباد سے پیرس روانہ کی۔ یہ پرواز پاکستان کی فضائی ساکھ کی جزوی بحالی کی علامت سمجھی گئی۔
تاہم برطانیہ کی جانب سے اب تک پروازوں کی بحالی کی اجازت نہیں دی گئی۔ مارچ 2025 میں برطانوی ایئر سیفٹی کمیٹی نے پاکستان میں سکیورٹی انتظامات کا دوبارہ جائزہ لیا، جس کے بعد امید پیدا ہوئی کہ جلد پابندی ختم ہو سکتی ہے۔ مگر اب تک برطانیہ کی جانب سے کوئی باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا۔
اسلام آباد ایئرپورٹ پر حالیہ انسپیکشن کو ان امیدوں کی ایک اہم کڑی سمجھا جا رہا ہے۔ اگر برطانوی حکام اس معائنے سے مطمئن ہوئے تو یہ پاکستان کے لیے ایک بڑی کامیابی ہو سکتی ہے۔
اس سے نہ صرف پی آئی اے بلکہ نجی پاکستانی ایئرلائنز کو بھی برطانوی فضائی مارکیٹ میں دوبارہ داخل ہونے کا موقع ملے گا، جو مالی لحاظ سے بھی فائدہ مند ہے اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے لیے وقار کی علامت بھی۔
پاکستانی حکام پُر امید ہیں کہ برطانوی محکمہ ٹرانسپورٹ کا مثبت ردعمل جلد سامنے آئے گا، اور اس طرح پاکستانی طیارے ایک بار پھر لندن، مانچسٹر، برمنگھم جیسے شہروں کے ہوائی اڈوں پر اتریں گے۔ اس پیش رفت سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو بھی فائدہ ہو گا، جو اب مہنگی یا غیر مستقیم پروازوں پر انحصار کرتے ہیں۔