اوورسیز پاکستانیوں کے دل ہمیشہ اپنے پیاروں کی فکر میں مبتلا رہتے ہیں۔ چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں، ان کے ذہن میں ایک ہی سوال گونجتا رہتا ہے: "میرے والدین کیسے ہوں گے؟ بچوں کی صحت کیسی ہوگی؟ اگر کوئی ایمرجنسی ہو جائے تو میں کیا کر سکوں گا؟” فاصلہ، وقت اور فوری رسائی کی کمی ایسے لمحوں میں ان کے لیے بے بسی کی علامت بن جاتی ہے۔
اسی خلاء کو پر کرنے کے لیے پاکستان میں ایک منفرد اور جدید پلیٹ فارم متعارف کرایا گیا ہے جس کا نام ہے "محسن”۔ یہ ایک ایسا سسٹم ہے جو دور دراز ملکوں میں رہنے والے پاکستانیوں کو سکون اور اعتماد فراہم کرتا ہے کہ ان کے پیارے پاکستان میں محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔
"محسن” کے بانی اور سی ای او فہد محمود خان نے اس منصوبے کی بنیاد ایک ذاتی تجربے اور جذباتی جذبے کے تحت رکھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملہ ہوا تو وہ ایک باپ کی حیثیت سے اپنے بچے کی حفاظت کے بارے میں فکرمند ہوئے۔
وہ چاہتے تھے کہ ان کے بیٹے کے لیے ایک محفوظ تعلیمی ماحول ہو، لیکن اس سوچ نے ان کے اندر ایک نیا سوال پیدا کیا کہ جو والدین مالی طور پر اتنے مستحکم نہیں، ان کے بچوں کا کیا بنے گا؟ اسی اخلاقی کشمکش نے انہیں ’محافظ‘ جیسے پلیٹ فارم کی طرف راغب کیا، جو اندرونِ ملک شہریوں کی مدد کے لیے شروع کیا گیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ، انہیں بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے مسلسل پیغامات ملنے لگے کہ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں رہنے والے ان کے والدین کے لیے کوئی ایسا سسٹم ہو جو ان کی روزمرہ زندگی اور ہنگامی حالات میں مدد کر سکے۔
یہیں سے ’محسن‘ کی بنیاد پڑی۔ فہد خان کے مطابق یہ محض ایک کاروباری ماڈل نہیں بلکہ دل کی آواز تھی جس نے اس سفر کا آغاز کروایا۔
محسن کو پاکستان کا پہلا سبسکرپشن بیسڈ، پریمیم ایمرجنسی سپورٹ پلیٹ فارم کہا جا سکتا ہے جو ان خاندانوں کو خدمات فراہم کرتا ہے جن کے کفیل یا قریبی رشتہ دار بیرون ملک مقیم ہیں۔ اس پلیٹ فارم کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ یہ نہ صرف طبی ایمرجنسی یا صحت سے متعلق مسائل پر توجہ دیتا ہے بلکہ روزمرہ کے مسائل، جذباتی مدد، گھریلو سہولتوں اور قانونی امور تک میں تعاون فراہم کرتا ہے۔
فہد محمود خان کا کہنا ہے کہ محسن صرف ایک خدمت نہیں بلکہ ایک جذبہ ہے، جو دور بیٹھے پاکستانیوں کے ذہن و دل کو سکون دیتا ہے۔ ’ہماری ٹیم نہ صرف ایمرجنسی رسپانس میں مہارت رکھتی ہے بلکہ والدین یا اہلِ خانہ کو وقتاً فوقتاً مختلف تقریبات، تفریحی مواقع اور جذباتی سہارے کی سہولت بھی دیتی ہے۔‘
یہ پلیٹ فارم ملک کے 360 سے زائد شہروں میں اپنی خدمات فراہم کر رہا ہے اور اب تک 15 ہزار سے زائد جانیں بچائی جا چکی ہیں جبکہ 55 ہزار سے زائد ایمرجنسی حالات میں بروقت مدد فراہم کی گئی ہے۔ یہ خدمات تربیت یافتہ پیشہ ور افراد کے ذریعے انجام دی جاتی ہیں، جن کی نگرانی مکمل طور پر ڈیجیٹل سسٹم سے منسلک فیملی منیجرز کرتے ہیں۔
محسن کی خدمات میں ایمبولینس کا فوری بندوبست، ہسپتالوں میں کوآرڈینیشن، بلڈ بینک تک رسائی، طبی معائنے اور معمر افراد کی مستقل نگہداشت شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ گھر کی صفائی، مرمت، کیٹرنگ، ڈرائیور کی فراہمی، یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگی، کرایہ داری کے معاملات، پراپرٹی مینجمنٹ اور قانونی مسائل میں معاونت جیسی سہولتیں بھی دی جاتی ہیں۔
محسن میں سائن اپ کرنے کے بعد، صارفین کو مکمل بریفنگ دی جاتی ہے، اور ان کی اجازت سے ان کے اہلِ خانہ سے دو تربیت یافتہ افسران ملاقات کرتے ہیں تاکہ ایک مکمل رپورٹ تیار کی جا سکے۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر 48 گھنٹوں میں ایک مخصوص فیملی منیجر مقرر کیا جاتا ہے جو چوبیس گھنٹے ان کی ضروریات کو مانیٹر کرتا ہے۔
اوورسیز پاکستانیوں کے لیے یہ ایک بڑی سہولت ہے کیونکہ اکثر ان کے والدین یا دیگر اہل خانہ ہنگامی حالات میں ان سے رابطہ نہیں کر پاتے اور فوری طور پر مدد میسر نہیں ہوتی۔ محسن اس خلا کو پُر کرتا ہے اور ایک ایسا بااعتماد سہارا فراہم کرتا ہے جس پر دور بیٹھے افراد بھی بھروسہ کر سکیں۔
فہد خان کے مطابق، محسن کے سب سے زیادہ صارفین سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، برطانیہ اور امریکہ سے ہیں۔ پلیٹ فارم فی الحال کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں مکمل خدمات فراہم کر رہا ہے، جبکہ دیگر شہروں میں مخصوص نوعیت کی خدمات بھی دستیاب ہیں۔
محسن نہ صرف ہنگامی حالات میں مدد کرتا ہے بلکہ بزرگ والدین کے لیے خوشی کے لمحات کا بندوبست بھی کرتا ہے۔ انہیں مختلف تقریبات میں شرکت کا موقع دیا جاتا ہے، ان کے لیے تفریحی دورے اور ڈنر کا انتظام کیا جاتا ہے تاکہ وہ اکیلے پن کا شکار نہ ہوں۔
اس جدید پلیٹ فارم کا مقصد صرف خدمات کی فراہمی نہیں بلکہ ایک ایسے رشتے کو مضبوط کرنا ہے جو فاصلوں سے نہیں بلکہ خلوص، اعتبار اور دیکھ بھال سے قائم ہوتا ہے۔ بیرونِ ملک رہنے والے پاکستانیوں کے لیے محسن ایک ایسا اثاثہ ہے جو ان کے لیے پاکستان میں اُن کے خاندان کے ساتھ ایک مضبوط تعلق قائم رکھتا ہے، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں