سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے نے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی خیبر پختونخوا میں سیاسی حیثیت کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔ 21 مخصوص نشستوں پر اپوزیشن جماعتوں کو نمائندگی دیے جانے کے بعد نہ صرف پی ٹی آئی کی عددی اکثریت کمزور ہوئی ہے بلکہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی قیادت بھی گہرے سیاسی دباؤ اور پارٹی کے اندرونی اختلافات کی لپیٹ میں آ چکی ہے۔ 145 رکنی اسمبلی میں اپوزیشن کی تعداد اب 54 ہو گئی ہے، جس نے پی ٹی آئی کی اجارہ داری کو کھلے چیلنج میں بدل دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق علی امین گنڈاپور کو اندرونِ خانہ عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور اُن کی بہنوں کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کا سامنا ہے۔ ان پر حکومتی امور میں ناقص کارکردگی کے الزامات بھی لگ رہے ہیں، جس کے باعث پارٹی میں اختلافی گروہ زیادہ متحرک ہو گئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق کچھ اراکین علی امین کی قیادت پر کھل کر عدم اعتماد کا اظہار کر چکے ہیں، اور بعض تو بغاوت کے موڈ میں نظر آ رہے ہیں۔
مخصوص نشستوں پر ہونے والی نئی تقرریوں سے جمعیت علمائے اسلام (ف) کو 10، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو مجموعی طور پر 7، اے این پی کو 1 جبکہ پی ٹی آئی کو صرف 1 نشست ملی ہے، جو کہ ان کی سیاسی گرفت کو مزید کمزور کرتا ہے۔ اس فیصلے کو وفاقی حکومت کے لیے ایک حوصلہ افزا پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب وفاقی سطح پر اپوزیشن کی پوزیشن کمزور تصور کی جا رہی تھی۔
تجزیہ کار علی اکبر کے مطابق وفاق اور خاص طور پر مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی حکمت عملی پر کام کر رہی ہے، اور اگر ایسا ہوا تو علی امین کی حکومت دنوں میں ختم ہو سکتی ہے۔ ادھر صحافی عمیر یاسر کا کہنا ہے کہ اگرچہ علی امین پارٹی میں مضبوط شخصیت ہیں اور سخت فیصلوں کے ذریعے اپنے گروپ کو متحد رکھے ہوئے ہیں، تاہم ان کے خلاف گروپنگ بھی شدت اختیار کر چکی ہے، اور اگر انہیں ہٹایا گیا تو وہ پارٹی کے خلاف ردعمل دے سکتے ہیں، جس سے سب سے زیادہ نقصان خود پی ٹی آئی کو ہوگا۔
ادھر مخصوص نشستوں پر نامزد اراکین کی حلف برداری بھی ایک نیا تنازع بنتی جا رہی ہے۔ پی ٹی آئی نے فیصلے کو مسترد کر کے اسمبلی اجلاس کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا ہے، تاکہ ان اراکین کی حلف برداری روکی جا سکے۔ تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی صرف تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے کیونکہ وہ جانتی ہے کہ بالآخر ان اراکین کو حلف لینا ہی ہوگا۔
خیبر پختونخوا میں سیاسی منظرنامہ تیزی سے بدل رہا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت پر دباؤ بڑھ رہا ہے، اپوزیشن نئے مواقع تلاش کر رہی ہے اور اندرونی پارٹی اختلافات پی ٹی آئی کی سیاسی بقاء کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ اگر یہی صورتحال جاری رہی تو جلد ہی ایک نئی سیاسی صف بندی اور ممکنہ حکومت کی تبدیلی کی راہیں ہموار ہو سکتی ہیں۔